اپوزیشن 2018ء کی اتحادی جماعتوں کے انتخابی نتائج اور عمران خان کے خلاف سخت احتجاج کی دھمکی کا کھیل کیا رنگ لائے گی ۔ اس سلسلے میں کسی بزرگ نے خوب کہا تھا کہ ”بڑامبارک ہوتا ہے وہ دن، جب کوئی نیا یا پرانا سیاسی جماعت کا امید وار ہزاروں دعوﺅں کے ساتھ گھرمیں آئے اوراس سے بھی زیادہ مبارک وہ دن جب وہ چلاجائے!چونکہ عام الیکشن یا بلدیاتی الیکشن میں ا یسا مبارک دن ”انتخابات “ میں کئی بارآتاہے اورتلخی کام ودہن کی آزمائش کرکے گزرجاتے ہیں،اس لیے اطمینان کا سانس لینا، بقول شاعر، صرف دو ہی موقعوں پر نصیب ہوتا ہے۔“
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
کیوں کہ موجودہ سیاست دانوں اور الیکشن میں ہارنے والے سابق حکمرانوں کے لئے حقیقتوں کو کہانی بنانابڑاآسان ہے لیکن حقیقتوں کی کہانی پوری غیر جابنداری کے ساتھ بیان کرنا بہت مشکل ہے ۔ کہتے ہیں کہ آنسوﺅں کی زبان نہیں ہوتی لیکن ان کے امنڈنے میں اس طغیانی کے پیش خیمے کی آواز ہوتی ہے جس کے بہاﺅمیں تہذیبیں غرق ہوجاتی ہیں ، آنسوﺅں کا زمین سے کوئی رشتہ نہیں لیکن آنسوزمین میں پیوست ہوکردبکتی ہوئی اس آگ کی تاریخ لکھتاہے جو جوالامکھی کی شکل میں پھٹ کر بستیوں کو لاوئے کی آغوش میں سلاکے دنیا کو زیر وزبر کردیتاہے ۔جسے ہزاروں سال بعد کا مورخ کھودکھود کے پڑھتا ہے۔
ظلم ایک شیطانی خصلت ہے جو آدمی کے خمیر میں شامل ہے ۔ظلم کا وجودظالم ومظلوم کو جنم دیتاہے ۔ایک قابیل ہے تودوسرے کا ہابیل ہونا بھی ضروری ہے ۔ہابیل کے آنسو تاریخ کے صفحات پر نقش نہیں لیکن قابیلیوں کے ظلم کے نتیجے میں تہذبیوں کے دفن ہوجانے کے آثارزمین اپنے سینے میں محفوظ کئے ہوئے ہے، یہ آثار آنسوﺅں کے نقوش ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ ” موٹروے ، قرض اتاروملک سنوارو، ایل ڈی اے ،میٹروبس سروس ، سستی روٹی سکیم ، نندی پور ، نیلم جہلم منصوبہ ، دانش سکولوںسمیت کئی اہم قومی منصوبوں کا ریکارڈ آگ نے اپنے آغوش میں لے لیا “ لیکن اس وقت کے حکمرانوں نے احتجاج کرنے کے بجائے معاملے کو گول کردیا ۔اب چلاس میں کئی تعلیم اداروں کو ملک دشمن عناصر نذرآتش کررہے ہیں اور عام انتخابات میں ہارنے والے سابق حکمرانوں کی اس سانحہ پر خاموش المیہ فکریہ ہے۔
میڈیارپورٹس ، عالمی اور قومی مبصرین کے مطابق عام انتخابات میں ہارنے والی ہم خیال جماعتوں کے رہنماﺅں کاانتخابات کے نتائج کو مسترد کرکے فوری ایک دوسرے کے اتحاد ی ہوجاناہے بھی سوالیہ نشان ہے؟ دوسری جانب تمام ہم خیال جماعتوں کے رہنماﺅں پارلیمنٹ میں جائیں گے، پی ٹی آئی کو بتائیں گے کہ حقیقی اپوزیشن کیا ہوتی ہے،دھاندلی کیخلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کیا جائے گا، مضبوط اورمربوط اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے، ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کیا جارہاہے کہ ہم اپوزیشن کے طور پر مقابلہ نہیں کرنے جارہے بلکہ ہم حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں،ایوان میں کٹھ پتلی حکمران جماعت کا مقابلہ کیا جائے گا،ایوان کے اندر اور باہر احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے،اپوزیشن آئین و جمہوریت کی حفاظت کرے گی۔
”پاکستان مسلم لیگ ن،پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل ، عوامی نیشنل پارٹی ، نیشنل پارٹی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر موجودہ اتحادی جماعتوں کی قیادت“ راجہ محمد ظفر الحق ،میاں شہباز شریف ، سردار ایاز صادق ، خواجہ سعد رفیق ، احسن اقبال ، رانا تنویر ، امیر مقام ، چوہدری تنویر خان سردار مہتاب احمد خان مشاہد اللہ خان خرم دستگیر، مرتضی جاوید عباسی ،مریم اورنگ زیب ،انجم عقیل خان ، مولانا فضل الرحمن ، مولانا عبدالغفور حیدری ،محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی یوسف رضا گیلانی، نوید قمر راجہ پرویز اشرف، سید خورشید شاہ، شیری رحمن، قمر زمان کائرہ اور فرحت اللہ بابرمیر حاصل بزنجو اور آفتاب احمد خان شیر پاﺅ نے حاجی غلام احمد بلور، میاں افتخار حسین، اویس نورانی، لیاقت بلوچ بیرسٹر مسرور، عثمان کاکڑ، رضامحمد رضا، ملک ایوب اور سینیٹر میرکبیر ،احسن اقبال سمیت دیگر رہنماﺅں کا تعلق ان کیسز سے بھی جو سپریم کورٹ ، نیب سمیت دیگر اداروں میں زیر سماعت ہیں ،2018ءکی نئی اتحادی اپوزیشن کااصل ایجنڈہ چنددنوں تک منظرعام آنا بھی متوقع ہے کہ احتجاج انتخابی دھاندلی کے خلاف ہوگا یا زیر سماعت کرپشن کے متعدد کیسز کے لئے ہو گا۔
کیوں کہ پرامن اور اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرنا ہر پاکستانی شہر ی کا حق ہے لیکن الیکشن میں ہارنے والی جماعتوں کے رہنماﺅں احتجاج آغازکس ایجنڈے پر شروع ہو گا ۔یہ قبل زیر بحث نہیں۔اس سلسلے میں متعدد اتحادی جماعتوں کے رہنماﺅں کو ” کرپشن ، پامانا، سانحہ ماڈل ٹاﺅن سمیت کئی اہم زیرمقدمات ، خصوصاً حلف نامے میں تبدیلی “ جسے معاملات پر فکر لاحق ہے ۔جس سے اپوزیشن میں شامل کریشن زد سیاست دانوں کی شکست یقینی ہے ۔ جس سے بچانے کےلئے چند عناصر احتجاج جس فضاءپیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اورکرتے رہے گے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کووطن عزیر کی ترقی وخوشحالی کے لئے ایماندارقیادت کا ساتھ دینا چاہتے تاکہ ملک دشمن عناصر اپنے ناپاک عزم میں کامیاب نہ ہو سکے۔