تحریر : مدیحہ ریاض وہ دیہات کا رہائشی تھا۔لیکن روزگار کی وجہ سے شہر آنا پڑا۔اور وہ جس شہر روزگار کی خاطر آیا یوں سمجھئے کہ وہ انسانوں کا سمندر کہلاتا ہے۔ٹھیک سمجھے آپ کہ وہ شہر کراچی ہے۔اسے کراچی کی ایک نجی کمپنی کو جوائن کئے تقریباً دو ماہ ہو گئے تھے۔لیکن اس دوران اسے چہل قدمی کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ گاؤں میں چہل قدمی کرنا اس کے روز کا معمول تھا۔لیکن کراچی آنے کے بعد وہ کام میں اس قدر مصروف ہو گیا کہ اسے چہل قدمی کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو گیا۔لیکن اس روز جمعہّ تھا اور وہ جمعہّ کی نماز پڑھ کر دوبارہ کمپنی جانے کی بجائے اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گیا۔اس نے دوپہر کا کھانا کھا کر دو گھنٹے قیلولہ کیا۔اس کی آنکھ تقریباً6 بجے کُھلی۔پھر وہ چہل قدمی کے لئے باہر روڈ پر آگیا۔یہ روڈ شہر کراچی کا مصروف ترین روڈ ہے۔یہ روڈ دو راہہ ہے ایک طرفہ روڈ کی ازسر نو تعمیر ہو رہی تھی۔
دوسری طرف روڈ پر ٹریفک کا جم غفیر تھا اور گاڑیاں جوں کی رفتار سے رواں دواں تھیں۔ اچانک اسکی نظر دو گاڑی والوں پر چلی گئی دونوں گاڑیوں کے مالک آپس میں دست و گریباں تھے اور گالم گلوچ کی زبان میں گفتگو کر رہے تھے۔کیونکہ ان کی گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئی تھیں۔اور تو اور کچھ گاڑیوں والے حضرات اتنی جلدی میں تھے کہ وہ دوسری گاڑیوں کے درمیان سے اپنی گاڑیاں نکال کر دو راہہ روڈ کے درمیان سے گزرتے بند نالے کو کراس کرنے میں لگے ہوئے تھے۔اور وہ سوچنے پے مجبور ہو گیا ہم پاکستانی عوام بہت بے صبری قوم ہے۔
اس بات کا عملی ثبوت بینک،نادرا آفس،دودھ خریدنے، ٹریفک جام ہو جانے اور یوٹیلیٹی اسٹور کے باہر لائن بنا کر کھڑے افراد اپنی حرکات و سکنات سے پیش کر دیتے ہیں۔لائن میں لگنے کی بجائے آگے بڑھ بڑھ کر اپنا کام کروانا اس قوم کا شیوہ بن چکا ہے یعنی لائن توڑ کر دوسروں کی باری میں اپنا کام کرنا اور کہنا کہ دیکھ یا ر کروا لیا نا۔ اور اسی لائن میں لگا اصول پرست شخص اپنی باری کا انتظار ہی کرتا رہ جاتا ہے۔
Traffic Police
اگر پولیس نے تیز رفتار گاڑی چلانے پے گرفتار کیا تو پھر پو لیس کو رشوت کی پیشکش کرنا اور پھر کہنا کہ پاکستان کی پولیس ہے ہی رشوت خور۔ اس عوام سے التماس ہے کہ اصول وضوابط اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ اُن کی پاس داری کی جائے اور ناکہ اُن کو توڑا جائے اصول و ضوابط پر عمل نہ کرنے والی اس عوام کے پاس کوئی حق نہیں ہے کہ وہ حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اُٹھائے۔جیسی عوام ویسے ہی حکمران یہ عذاب ہم پر ہمارے اپنے ہی اعمال کی وجہ سے مُسلط ہے اگر ہم پاکستان کو ایک کامیاب ترین ملک بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی بُری روش کو ترک کرنا ہوگا۔