تحریر : راحیل رسول گجر قائد اعظم کا جہاز کراچی کی جانب بڑھ رہا تھا، دہلی سے روانگی کے وقت جناح نے اپنا قیمتی سامان، انگریزی سوٹ، اہم کتابیں اور دستاویزات طیارے میں رکھ لیں تھیں۔ یہ 7اگست 1947کی صبح تھی اور جناح دہلی کو ہمیشہ کے لیئے الوداع کہہ رہے تھے، جہاز پر سوار ہوتے وقت جناح نے مڑ کر دہلی کی طرف دیکھا، سرد آہ بھری اور حسرت آمیز لہجے میں بولے شاید میرے لیئے یہ دہلی کا آخری دیدار ہے اور جب جہاز نے رینگنا شروع کیا اور ہوا میں اڑان بھری تو جناح بولے آج سارا قصہ ختم ہو گیا۔
جہاز اپنی منزل کراچی کی جانب بڑھ رہا تھا، جناح نے دوپہر کا کھانا جہاز میں ہی کھایا اور اس کے بعد اخبا ر پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔ دہلی سے کراچی تک کا سفر اخبار پڑھتے ہو ئے گزرے، جناح کے دائیں جانب اخباروں کا بنڈل پڑا تھا وہ اس سے ایک اخبار اٹھاتے، اس کی ورق گردانی کرتے اور اسے بائیں جانب رکھ دیتے۔ پورے سفر کے دوران جناح نے صرف ایک دفعہ لب کشائی کی اپنے اے ڈی سی کی طرف متوجہ ہو ئے اور پوچھا آپ یہ خبار پڑھیں گے اس کے بعد سارا سفر مکمل خاموشی سے گزرا۔ جہاز کراچی کے قریب پہنچ چکا تھا، جناح نے نیچے نظر دوڑائی، ہر طرف ہزاروں آدمی ا ن کے استقبال کے لیئے چشم براہ تھے، مجمع میں اکثر لوگوں نے سفید لباس پہنا ہوا تھا اور یوں محسوس وہ تا تھا جیسے نیچے کو ئی برفانی طوفان آیا ہوا ہے۔ عوام میں بڑی تعداد مہاجرین کی تھی اور وہ جذباتی انداز میں نعرے لگا رہے تھے۔
جہاز نے کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کیا، پہلے جناح جہاز سے باہر نکلے ان کے بعد ان کی بہن فاطمہ جہاز سے باہر آئیں لوگوں نے قائد اعظم کو دیکھا توفضا قائد اعظم زندہ باد اور پاکستان زندہ آباد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ جناح آگے بڑھے مسلم لیگی لیڈروں سے مصافحہ کیا تو کئی لیڈروں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ایئر پورٹ سے گورنمنٹ ہاوس تک ہر طرف عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا اور اس ہجوم میں وہ بوڑھی فاطمہ بائی بھی تھی جو بچپن میں جناح کو رات دیر تک پڑھنے سے منع کرتی تھی اور اس کے جواب میں جناح کہا کرتے تھے اگر میں بھی سو جاوں گا تو عوام کی راہنمائی کو ن کر ے گا۔ گورنمنٹ ہاوس پہنچ کر جناح سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے رک گئے ،اپنے بحری اے ڈی سی احسن کو پاس بلایا اور اسے مخاطب کر کے کہا مجھے امید نہیں تھی کہ پاکستان میری زندگی میں بن جائے گا یہ سب اللہ کا کرم ہے اور ہمیں اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔گورنمنٹ ہاوس پہنچ کر جناح نے اپنے اے ڈی سی کو ساتھ لیا اور اپنی قیام گاہ کا معائنہ کیا ۔اس سے پہلے گورنمنٹ ہاوس میں سندھ کے گورنر مقیم تھے ،جناح نے گورنمنٹ ہاوس کے ایک ایک کمرے کا جائزہ لیا،
اے ڈی سی کو ہدایات دیں کہ کون سا حصہ کس مقصد کے لیئے استعمال ہو گا ۔ایک حصے کے متعلق کہایہ حصہ میرے اور مس فاطمہ کے لیئے مخصوص ہو گا چند کمروں کی طرف اشارہ کر کے کہا یہ کمرے اہم اور خصوصی مہمانوں کے لیئے مختص ہوں گے، ان میں دنیا کی اہم ترین شخصیات شاہ برطانیہ اور شاہ ایران قیام کریں گے دن ڈھلنے لگا تو جناح نے عملے کے ایک رکن کو حکم دیا ایک ریڈیوسیٹ فورا یہاں لگوا دو تا کہ میں شام کی خبریں سن سکوںیہ کو ئی نیا افسر تھا اور جناح کے مزاج سے ناآشنا تھا بولا سر آپ تھک گئے ہیں ابھی آپ آرام کریں میں صبح تک ریڈیو سیٹ لگوا دوں گا جناح کو غصہ آگیا فورا بولے یہ کام فورا ،ابھی اور اسی وقت ہو نا چاہیے،تم ریڈیو سیٹ لگوا کر گھر جاو گے اور آج کے بعد یہ بات ذہن میں بٹھا لینا کہ گورنمنٹ کے کاموں میں میرے ساتھ یہ ٹال مٹول ہرگز نہیں چلے گا قائد اعظم ایک ریڈیو سیٹ کے لیئے ایک رات کے تاخیر برداشت نہیں کر سکتے تھے اور انہوں نے پہلے روز ہی اپنے عملے کو وارننگ جاری کر دی تھی لیکن ہمارے حکمران سیلاب کے نام پر گزشتہ چار سالوں سے ہمارے ساتھ ٹال مٹول کر رہے ہیں لیکن انہیں کو ئی پوچھنے والا نہیں۔
Flood
پاکستان کو 2010میں بد ترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس کے بعدسے اب تک ہر سال سیلاب آتا ہے لیکن ہمارے لیڈر اور حکمران سیلابی پانی میں تصویریں بنوا کر عوام کے ساتھ ٹال مٹول کر کے وقت گزار لیتے ہیں ۔2010 سے 2014تک تین ہزار جانیں سیلا ب کی نذر ہو چکی ہیں اور قومی معیشت کو سولہ ارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے ،2010کے سیلاب میں متائثر ہو نے والوں کی تعداد 2004کے سونامی ،2005کے زلزلے اور 2010کے ہیٹی کے زلزلے سے ذیادہ تھی۔ اس سال انڈیا نے 14لاکھ کیو سک پانی چھوڑا تھا جس کا مقابلہ کرنا انسانی بس میں نہیں۔ اب تک تقریبا سوا دو لاکھ ایکڑ رقبے پر مشتمل فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، تین سو سے زائد افراد جاں بحق اور 12لاکھ لوگ متائثر ہو چکے ہیں، پنجاب کے 12اضلا ع میں تباہی مچانے کے بعد اب یہ سیلاب سندھ میں تباہی مچانے کے لئے داخل ہو چکا ہے۔ آپ ہمارے حکمرانوں اور لیڈروں کی بے حسی ملاحظہ کریں ،ہمارے ہاں ہر سال اگست اور ستمبر کے مہینے میں سیلاب آتا ہے، ہزاروں ایکڑ زمین تباہ ہوتی ہے، سینکڑوں لوگ ہلاک ہو تے ہیں، ہزوروں مویشی ڈوب جاتے ہیں ،فصلیں تباہ ہو تی ہیں ،عوام کے گھر پانی میں بہہ جاتے ہیں اور قوم کی ساری جمع پونجی سیلاب میں بہہ جاتی ہے۔
لیکن ہمارے حکمران چند روز کے لیئے طوفانی دورے کرتے ہیں ،کشتیوں میں بیٹھ کر امداد تقسیم کرتے ہیں اور سیلابی پانی میں کھڑے ہو کر تصویریں بنواتے ہیں اور دوبارہ اپنی عیاشیوں میں مگن ہو جاتے ہیں ۔پاکستان میں 75فیصد بارشیں جون تا ستمبر چار ماہ میں ہو تی ہیں، ہماری زمین کا نوے فیصد حصہ زلزلے اور ساٹھ فیصد حصہ سیلاب کی زد میں ہے، ہماری معیشت ہر سال قدرتی آفات کی وجہ سے 800ملین ڈالر کا نقصان برداشت کرتی ہے ،ہمارے ہاں ہر سال سیلاب آتا ہے، گرمیوں میں ہمالیہ کی برف پگھلتی ہے، مون سون کی وجہ سے پانی میں اضافہ ہوتا ہے، پہاڑوں سے چشموں کا پانی دریاوں کی طرف بہنے لگتا ہے، بھارت میں ہونے والی بارشوں کا پانی بھی ہمارے دریاوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے، ہماچل پردیش کی بارشوں اور پہاڑوں کا پانی بھی پاکستان کی طرف بہتا ہے اور کشمیر اور مشرقی پنجاب میں ہونے والی بارشوں کا بوجھ بھی پاکستانی دریاوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن آپ اپنے حکمرانوں اور انتظامیہ کی نااہلی دیکھیں کہ ہم گزشتہ پانچ سالوں سے ان سیلابوں، بارشوں اور پانیوں کے رحم و کرم پر ہیں،ہم ہر سال سینکڑوں جانیں ،ہزاروں مویشی اور لاکھوں ایکڑ اراضی کھو دیتے ہیں لیکن ان سب طوفانوں اور مصیبتوں کی پیشگی اطلاعات کے باوجود کبھی اس پر ریسرچ ہو ئی اور نہ اس کے مطابق پالیسیاں بنائی گئیں۔
Shahbaz Sharif
ہمارے حکمران اور لیڈر سال کے دس مہینے بیٹھ کر سیلاب کا انتظار کرتے ہیں اور اگست ستمبر میں جب سیلاب آتا ہے تو لانگ بوٹ اور جیکٹیں پہن کر کشتیوں میں سوار ہر کر متائثرین کی مدد کے لیئے نکل پڑتے ہیں ۔،یہ پورے دس ماہ سیلاب سے نمٹنے کی پلاننگ نہیں کریں گے لیکن جیسے ہی سیلاب آئے گا یہ کھرپے اور بیلچے لے کر بند ھ باندھنے کے لیئے میدان میںآ جائیں گے۔1910میں فرانس میں سیلاب آیاتھا، فرانس کی حکومت نے اس پر ریسرچ کی ،اس کے لیے لائحہ عمل طے کیا اور سیلاب کے قدرتی راستے میں آنے والی ساری زمینوں کو سیلاب کا حصہ بنا دیا، اس کے بعد فرانس میں کبھی سیلاب نہیں آیا۔ میاں صاحب آپ ہیلی کاپٹروں میں دورے کرنے کی بجائے سیلاب سے نمٹنے کے لانگ ٹرم منصوبے بنائیں، آپ کشتیوں میں بیٹھ کر امداد تقسیم کرنے اور لانگ بوٹ پہن کر پانی میں تصویریں بنوانے کی بجائے ان مسائل کا کو ئی مستقل حل نکالیں ،اور اگر آپ کو گزشتہ پانچ سالوں سے سیلاب سے نمٹنے کا کو ئی حل نظر نہیں آ رہا تو برائے مہربانی آپ اس دفعہ فرانس کا ایک چکر لگا آئیں اور وہاں کی انتظامیہ سے سبق سیکھ آئیں کیوں کہ یہ قوم ہر سال اپنی جمع پونجی لٹا لٹا کر کنگھال ہو چکی ہے ،اب اس کے پاس کھونے کے لیئے کچھ نہیں بچا، خدا را اب آئندہ کے لیئے منصوبہ بندی کر لیں آئندہ کے لیئے پالیسیاں تشکیل دیں لیں تا کہ آئندہ سال اس لٹی پھٹی قوم کی کم از کم زندگیاں تو محفوظ رہ سکیں۔