اللہ کو پا لیا سب کچھ پا لیا اللہ کو کھو دیا سب کچھ کھو دیا لا الہ الہ للہ کا پیغام ہے کہ مرنے سے پہلے اللہ کو راضی کر لو حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کو راضی کیا یزید نے حکومت کو راضی کیا یزید نے حکومت پا لی وہ حکمران بنا اُس کے خاندان نے حکومت کی اور حکومت اُس کی باندی بنی۔ حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جان دیکر نیزے پر سر چھڑا دیا خاندان کا افضل ترین خون ایسے پانی کی طرح سستا ہو کر زمین پر بہا۔ قارئین کرام ظالم مظلوم کی کہانی کوئی نئی بات نہیں، لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہیے مظلوم کبھی ناکام نہیں ہوتا اور ظالم کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔
مظلوم بن جائو حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رفیق کہلائو گئے، ظالم بنو گے تو یزید کے ساتھ شمار کئے جائو گے۔ محرم ہی کیا سارا سال یزید پر لعنت پڑتی ہے لیکن ناحق ظلم کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے انہیں بھی یزید کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا۔ یزید کے ساتھ کھڑا ہونا کون پسند کریگا؟۔ آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذبح ہو رہے ہیں حسین ذبح ہو رہے ہیں۔ کون حسین؟ کوئی اور نہیں میرے پیارے نبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لاڈلا حسین میرے نبی کا نواسہ حسین وہی حسین جس کے ہونٹوں کومیرے نبی نے کئی بار پیار سے بوسے دئیے جس کے ماتھے کو چوما جس کے ہاتھوں کو چوما جس کو اپنے سینے پر لٹایا۔
گھر میں داخل ہوئے اپنے نواسوں پر نظر پڑ ی تو شفقت سے ہاتھ بھی زمین پر رکھ دئیے اور گھٹنے بھی زمین پر ٹکادئے اور اپنی پشت مبارک کو برابر ایک بیلنس کرکے دونوں نواسوں کو اپنی پیٹھ مبارک پر بٹھا کر ادھر سے اُدھر چکر لگا رہے ہیں اور ٹھہر ٹھہر کر چہرہ مبارک اوپر کی طرف اُٹھا کر بچوں کی طرف دیکھ کر پوچھتے کہ تمہاری سواری کسی ہے بھئی، بچوں بولوں تمہار موڈ کیسا ہے کیا تم خوش ہوئے ایسے خوش نصیب سوار جن کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک سواری اور کائنات کی سب سے قیمتی صحبت ملی مگر بدبختوں نے کیا سے کیا کر دیا ایک پیارے نواسہ رسول حضرت حسن کو زہر دیاتو ایک کو نیزہ پر چڑھا دیا پر انہوں نے اللہ کو پا لیا اللہ کو پالیا تو سب کچھ پا لیا دین محمدی کو بچا لیا۔ فقط ایک بول پر امام عالی مقام حضرت حسین اپنی جان بچا سکتے تھے،اپنا مال بچا سکتے تھے، اولاد بچا سکتے تھے بیٹیاں بتا سکتے تھے سب کچھ بچا سکتے تھے کہ ہاں میں ظالم کا ساتھ دیتا ہوں اتنا ہی تو کہنا تھا کہ میں ظالم یزید کا ساتھ دیتا ہوں اس کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں۔
Prophet Muhammad (P.B.U.H)
مگر جناب حسین نے برملا کہا نہیں میں آل رسول ہوں میں کٹ تو سکتا ہو مگر ظالم کا ساتھی نہیں بن سکتا کردو میری اولاد کو ذبح، بھلے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو، چڑھا دوں ان کو نیزوں پر جو تجھ سے بن پاتا ہے وہ تو کر مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میں حسین ابن علی ظالم کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں۔ یہ شان ہے آل رسول کی کہ دین اسلام کی سربلندی اور مظلوموں کے حق کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ ہم بھی اسی محمد کی امت ہیں سانحہ کربلا بھی یہ درس دیتا ہے کہ ظالم نہ بنوں ورنہ ظالم کے ساتھی بن جائو گے مظلوم بن جائوں حسین کے ساتھی کہلائو گے روز قیامت کے دن ہمیں بھی ہمارا ا نبی ہار پہنائے گا جب حسین کے گلے میں ہار ڈالے جائینگے تو ہمارے گلے میں بھی ہار ڈالے جائیں گے ہمیں بھی سہرے پہنائے جائیں گے ہمیں بھی ہمارے آقا اپنے ہاتھ سے حوض کوثر پلائیں گے بس کہ تھوڑی دیر تک کا صبر کر جائوں جیسا کہ حسین صبر کر گئے۔
حسین یزیدیت کے آگے ڈٹ گئے کٹ گئے کٹا ہوا سر نیزے پر چڑھایا گیا بیٹیوں کو خیموں سے گھسیٹا گیا، کسی اور کی نہیں آل رسول کی بیٹیوں کو خیموں سے گھسیٹا گیا وہ پاک بیبیاں کے شرم و حیا خود بھی جن کی پاکیزگی اور طہارت کیغلام ہے۔ ہاتھوں میں کپکپی طاری اور الفاظ لڑکھڑا جاتے ہیں تاریخ کا یہ دلخراش منظر نامہ لکھتے ہوئے۔
حضرت زینب نے جب لاشوں کو کٹے ہوئے دیکھا اورسروں کو نیزے پر چڑھے ہوئے دیکھا تو انہوں نے ایک چیخ ماری اور کہا، ہائے یا محمد ہائے یا محمد آئو آئو آج دیکھو کہ آپ کی اولاد کے ساتھ ان ظالموں نے کیا کر دیا۔ آج تیرے حسین کی بارات ہیں انہوں نے اپنے خون کی تاروں کا جوڑا پہنا ہوا ہے اپنے مقدس جسم کی بوٹیوں کو پھلوں کی پتیاں بنا کر اُن کا ہار پہنا ہوا ہے۔ نیزے پرسر چڑھا مگر وہی پروقار شان وہی ہیبت وہ ہی خوبصورتی اور کلمہ حق کیلئے جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ یہ ہے حسین جس نے کلمہ حق کہتے ہوئے اسلام کو ابدی حیات بخشی۔وہ حسین جس کے خاندان کی عورتیں قید ہوچکی ہیں وہ رسول اکرمۖ کا لاڈلا جس کے سارے ساتھی بھی یزید مردود کے ہاتھوں ذبح ہوچکے ہیں جن پر ہوائوں نے خوداُٹھ کر مٹی کو اُڑیا اور مٹی کا کفن پہنایا۔ کٹا ہوا سر ابن زیاد کے آگے رکھا گیا ہے ابن زیاد کے ہاتھ میں چھڑی تھی اور وہ طاقت کے نشے میں چور ہے کہ میں نے بدلا لے لیا میں نے اپنے دشمن کو زیر کر لیا۔ حسین کا کٹا ہوا سر ابن زیاد کے سامنے آیا اُس کے ہاتھ میں چھڑی تھی اُس نے منہ پہ چھڑی ماری جو ہونٹوں پر آکر لگی پھر ماری اور کہا میں نے ایسا حسن آج تک نہیں دیکھا۔ پھر اُس نے چھڑی ماری تو حضرت انس کھڑے ہو کر کہنے لگے بدبخت یہ چھڑی ان ہونٹوں سے ہٹا میں نے ان ہونٹوں پہ اللہ کے نبیۖ کے ہونٹوں کورکھتے ہوئے دیکھا ہے۔
قارئین کرام کیا ابن زیاد کو موت نہ آئی؟ ۔کیا یزید کو موت نہ آئی؟۔ کیا مظلوم مر گیا تو کیا ظالم بچے گا ؟۔مقتول مر گیا تو کیا قاتل بچے گا؟۔ نہیں نہیں ایسا ہو ہی نہیں سکتا رب ذوالجلال کا فیصلہ یزید جیسے بدبختوں کیلئے جلد آنیوالا ہے جو آکر رہے گا۔ اے مسلمانوں ہم ایسی عظیم تاریخ رکھتے ہی ںہم کیوں آپس میں دست و گریبان ہو گئے، ہم کیوں ظالم کے ساتھی بن گئے، ہم کیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ ارے کیا موت ہمیں نہیں مارے گی۔ کیا اللہ کی قیامت قائم نہ ہو گی۔ نعوذ باللہ کیا اللہ سو گیا ہے، کیا اللہ کے فرشتے کمزور ہو گئے ہیں، کیا اللہ نے دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کر دیا ہے۔ کیا اللہ نے جنت کو آگ لگا دی ہے ہرگز ہرگز نہیں۔
ہم تو کلمہ گو ہیں۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے اُس کے خون کا پیاسا نہیں ہوتا اُس کے مال کو نہیں لوٹتا اُس کے حق پر ڈاکہ نہیں ڈالتا اس کو حقیر نہیں گردانتا، اُ س کو ذلیل نہیں سمجھتا۔ مسلمان مسلمان کا ساتھی ہے ہم ایک قوم نہیں بلکہ ایک امت ہیں اور لا الہ الہ اللہ ہماری پہچان ہے۔ میرا اللہ کہتا ہے زمین و آسمان کو اور اُس کے خزانوں کو اورہر چیز کو ایک پلڑے میں رکھ دو مگر ایک چھوٹے سے کاغذ پر لا الہ الہ اللہ محمد رسول اللہ لکھ کر دوسرے پلڑے پر رکھ دو تو میرے نبیۖ کا فرمان ہے کہ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے لا الہ الہ اللہ محمد رسول اللہ میں اتنا وزن ہے کہ سب کو ہوا میں اُٹھا دے گا۔ میرے پیارے مسلمان بھائیوں اپنی نبی کی طریقت کو اپنائو اپنینبی کے پیارے نواسے کے درس حسین کو اپنے اندر بیدار کرو تفرقہ بازی ختم اور باہمی اختلافات ختم کر کے حسینیت کا علم تھالو۔ قارئین کرام اسلامی واقعات اور تحاریر لکھتے ہوئے بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے لا محالہ کہیں کوئی کوتاہی یہ کمی رہی گئی ہو تو میری اصلاح فرما ئیے گا اللہ مجھ سمیت سب کو راہ ہدایت نصیب کرے۔ (آمین)