ہر حکمران کا ایک نیا نعرہ۔۔۔نیا دعویٰ

Pakistan

Pakistan

کسی نے حضرت علی سے سوال کیا یا میرالمومنین!آسمان اور زمین کے درمیان کیا کچھ ہے ؟۔۔۔آپ نے جواب دیا قبول ہونے والی دعا۔۔۔۔آپ سے پھر دریافت کیا گیا مشرق و مغرب کے درمیان کتنی مسافت ہے؟۔۔۔سورج کے ایک دن رات چلنے کی مسافت حضرت علی نے بلا تامل جواب دیا۔۔اس نے پھر پوچھا پانی کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے؟۔۔۔ میرالمومنین نے مسکرا کر کہا جو زندگی کا ذائقہ ہے وہی پانی کا ہوتا ہے۔

دانش کے امام کی ذہانت بھری باتیں پڑھ کر میں سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ ہم جیسے غالب اکثریت پاکستانیوں کی زندگی کا ذائقہ کیا ہے؟ ماضی ، حال یا مستقبل۔۔کسی عہدمیں بھی زندگی ہمیں اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ نہیں ملی۔۔۔ بیشتر ہم وطن بوڑھے ہونے کے باوجود زندگی کی اصل لذت سے محروم ہیں۔۔حقیقی خوشیوںکو لوگ ترستے مر جاتے ہیں۔۔اور تو اور عام آدمی کو بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں شاید اقبال نے یہ شعر پاکستانیوں کے بارے میں ہی لکھا ہو گا۔

نہ کہیں جہاں میں پناہ ملی جو پناہ ملی تو کہاں ملی
میرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفوِ بندہ نواز میں

لگتا ہے ہم پاکستانیوں کی زندگی سے آسودگی کی تلاش امریکہ دریافت کرنے سے زیادہ مشکل کام ہوگا کوئی حکومت کہتی رہی ہمیں تاریخ میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام کروانے کااعزاز حاصل ہے۔۔۔ کوئی روٹی ،کپڑا مکان کے نعرے لگاتا رہا۔۔۔کوئی یلو کیب میں روزگار ڈھونڈتا رہ گیا۔۔۔کسی نے نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کرڈالا۔۔۔کسی نے مفاہمت کی سیاست کے زور پر پانچ سال گذار دئیے۔۔پاکستان میں ہر حکمران ایک نیا نعرہ۔۔۔نیا دعویٰ لے کر اقتدار میں آیا۔۔۔سب نے کہا ہم نے ہر شعبہ ٔ زندگی میںانقلابی اقدامات کردئیے ہیںجس کے ثمرات جلد عوام تک پہنچنا شروع ہو جائیں گے ”یہ بھی کہا گیا ہم نے میٹر ک تک تعلیم اور کتابیں مفت کردی ہیں جس سے خواندگی میں اضافہ ہو گا۔

یہ دعویٰ بھی بیشتر حکمرانوں نے کرڈالا کہ ”عوام ہمارے ساتھ ہے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر پھر جیتیں گے یہ سب باتیں بجا۔۔۔آپ کا ہر دعویٰ سر آنکھوں پر۔۔۔آپ کی ہر بات تسلیم۔۔۔۔مگر حضور ِ والا یہ تو بتائیے آپ کے تاریخ ساز ترقیاتی کاموں کے باوجود شہر کی ہر سڑک کیوں ٹوٹی ہوئی ہے؟۔۔۔ہر محلے کا گٹر کیوں ابل رہا ہے؟اور مین ہولوں کے ڈھکن کیوں نہیںہیں؟ گیسٹرو اور ڈینگی کے مریضوں سے ہسپتال کیوں بھرتے جارہے ہیں؟۔۔۔ ہر شعبہ ٔ زندگی میںانقلابی اصلاحات اپنی جگہ پر لوگ غربت کے ہاتھوں مجبور کر انپے لخت ِ جگر کیوں بیچنے پر مجبور ہیں؟۔۔۔ اپنے گردے فروخت کرنے والے کون ہیں؟کیا یہ مخلوق پاکستانی نہیں۔۔۔حکمرانوں یہ بھی بتاتے چلوغربت کے باعث خودکشیوںکی تعداد میں برابر اضافہ کیوں ہوتا چلا جارہا ہے۔۔۔میٹر ک تک تعلیم اور کتابیں مفت تو ہیں مگر دکانوں،صنعتی اداروں اور ہزاروں ورکشاپوں اور موٹر مکینک کے اڈوںپر لاکھوں ” چھوٹے ” اپنا مستقبل گریس سے آلودہ کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔

Inflation

Inflation

ملک کے ہزاروں ٹی سٹالوں۔ہوٹلوں اورقالین بافی کے مراکزپر حکمرانوں کا”انقلاب” اور اس کے ثمرات کیوں نہیں پہنچے ۔۔۔ کیا عام آدمی کی زندگی کا ذائقہ حکمرانوں کے شب وروز جیسا ہے۔۔۔کیا عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے بھی امریکہ کی اجازت درکارہے۔ عوام مہنگائی کے خلاف احتجاج کریں تو کئی وزیر ،مشیر با تدبیر فرماتے ہیں لوگ خوشحال ہیں اسی لئے تو بچے بچے کے پاس موبائل ہے ۔۔یہ تو ایسے ہی ہے ایک شخص کو لندن جانے کا اتفاق ہو ا ۔۔ وطن واپس آیا تو ایک دوست نے اس سے پو چھا یار !لندن کی خاص بات کیا ہے ؟۔۔۔ خاص بات لندن پلٹ سوچ بچار کے بعد جواب دیا وہاں کا بچہ بچہ انگریزی بولتاہے۔۔۔کسی کو یہ سوچنے کی بھی شاید فرصت نہیں ۔۔ ملک بھر میں قتل و غارت کیوں بپاہے۔۔۔کبھی سوچا ہے امن و آتشی کے اس دور میں روزانہ کتنے لوگوں سے گن پوائنٹ پر موبائل جھینے جا رہے ہیں۔

”جس ملک میں 90% آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو ”اکثریت سیوریج سسٹم سے پریشان۔۔گندگی، آلودگی سے عاجز آئی ہو جہاں ہر سرکاری ادارے میں عوام کی مسلسل تذلیل ہوتی ہو ” جس ملک میں مخالفین کے مقدمے ری اوپن اور ہاں سے ہاں ملانے والوںکے سب گناہ معاف کردئیے جائیں وہاں آئین اور قانون کی حکمرانی کا خواب کیسے پورا ہو سکتاہے۔۔۔ جس معاشرے میں مٹھی بھر لوگ پورے ملک کے وسائل پر قابض ہو کر 18کروڑ عوام کا جینا عذاب بنا دیں وہاں خوشحالی کیسے آسکتی ہے۔۔۔ جہاں دن دیہاڑے گن پوائنٹ پر لوٹ لیا جائے اور لٹنے والی کو شنوائی کی جائے اسے جان کے لالے پڑ جائیں یا پھر معمولی مزاحمت پر موت کے گھاٹ اتاردیا جائے اور قانون نافذ کرنے والے محض طفل تسلیاں دیتے رہیں وہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتاہے۔۔۔ پیارے نبی کا ارشاد گرامی (مفہوم)ہے جس معاشرے میں انصاف کا معیار دہرا ہو یعنی امیر اور غریب کیلئے الگ الگ قانون ہو اسے تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔۔آپ اپنے ارد گرد دیکھیں۔۔ جائزہ لیں اور پھر غور کریں تو بات واضح ہو جائے گی اسلام کا آفاقی پیغام تو یہ ہے کہ

ایک ہی صف میںکھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

آج پاکستان میں ا امیر۔۔میر ترین اور غریب ۔۔ غریب تر ہوتا جارہا ہے یہ عام آدمی کے استحصال کی سب سے بری شکل ہے جس نے ہمارے معاشرے کی شکل بگاڑ کررکھ دی ہے آج ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ پاکستان بھر کے غریب اپنے حقوق کیلئے متحد ہو جائیں۔طفل تسلیاں۔۔دلاسے اور رنگ برنگے وعدے کرنے والوں کا خود احتساب کریں ووٹ کی طاقت سے انہیں شکست دینے کیلئے آپس میں اتحاد کرلیںاور اس بات کا تہیہ کرلیں کہ پاکستان کو ان کے چنگل سے چھڑانا ہے۔

کاش! ہمارے حکمران دل کی آنکھوں سے دیکھیں غور کریں اور محسوس کریں کہ اس ملک میں فسادکی اصل جڑ غربت کو ختم کرنے کیلئے حقیقی اقدامات کی اشد ضرورت ہے کیونکہ غربت کی کو کھ سے ہی جرائم جنم لیتے ہیں غربت ختم ہو گئی تو پاکستان کا ہر فرد خوشحال ہو جائے گاپھر کوئی گن پوائنٹ پر کسی کا موبائل نہ چھینے گا۔۔کوئی غریب کی جیب سے پیسے نہ ملنے پر طیش میں اسے چھری مارکر قتل نہیں کرے گا دن رات کے ڈاکے۔۔لوگوں کے فاقے ختم ہو گئے توچین ہی چین ۔۔۔ سکون ہی سکون ہوگا یہ دعا میری دلی دعا ہے۔

ربا ہو جان سب خوشحال
ساریاں خوشیاں پیسے نال

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی