تحریر : رقیہ غزل یہ کہنا کسی طور‘بے جا ‘نہ ہوگا کہ آج وطنِ عزیز حالت جنگ میں ہے ‘وہ جنگ‘ جو ہم لڑنا نہیں چاہتے مگر یہ ہم پر مسلط کر دی گئی ہے‘اندرون خانہ ریشہ دوانیوں اوربیرون خانہ مفاد پرست حکمرانیوں نے‘ ہمیں ان تاریکیوں میں‘ دھکیل دیا ہے کہ جہاں ہم یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ’’اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ ۔۔۔!!!‘‘ان گھمبیر حالات میں‘جب فیصلہ کرنا مشکل ہو چکا ہے کہ موجودہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے اور پاکستانی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘ایسے میں جناب آصف علی زرداری نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ’’ جمہوریت کو جمہوریت کے نام لیواؤں سے ہی خطرہ ہے ۔‘‘جس ملک کے اکثر حکمرانوں پر جمہوری رویوں اور جمہور کے حقوق کے خلاف‘ شہنشاہیت اپنانے پر مقدمات ہوں ‘جس کے اکثر سیاستدان‘ کمزوروں اور غریبوں کے اثاثوں اور عزتوں کے غاصب ہوں ‘جس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے‘ مجبوراور زرخرید غلام ہوں اور بالآخر کرپشن کے رنگ میں رنگے جا چکے ہوں ‘جہاں غریب کے لہو کی قیمت‘ چندلاکھ روپے یا چند ایکڑ اراضی ہو اور چادر اور چار دیواری کا تحفظ‘ نا پید ہو‘ وہاں جمہوریت اور جمہور کی بات کرنا ‘اور ایسے لوگوں کا جمہوریت کو بچانے کا دعویدار ہونا ‘کیا ایک کھلا تضاد نہیں ہے؟۔
یہ حقیقت تو روزِ اول کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کن گوناں گو قربانیوں سے حاصل کیا گیا ‘اورکیوں حاصل کیا گیا ؟اس سے ہر وہ انسان آگاہ ہے ‘جس نے اس وطن میں آنکھ کھولی ۔اس خطۂ زمین کے حصول کے لیے‘ ہمارے بزرگوں نے سب کچھ قربان کر دیا ۔ وہ خواب تو شرمندۂ تعبیرہو گیا مگر جس مقصد کے حصول کے لیے اس کا مطالبہ کیا گیا تھا‘ گزشتہ ۶۸ برس سے وہ پورا نہ ہوسکا ۔کاش ہمارے سیاستدان‘ اس حقیقت سے نابلد نہ ہوتے کہ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی شبانہ روز محنتوں ،بہترین قیادت ،ان کے ساتھیوں کے بھرپور ساتھ ،تحریکِ پاکستان کے مخلص کارکنوں ،اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ممبران ،اور بے شمار خاموش اور گمنام سپاہیوں اور شہیدوں کی قربانیوں کا ثمر ہے اور اس وقت سب نے یہ عہد کیا تھا کہ اس کی حفاظت ہم سب نے کرنی ہے‘ مگر یہ کس قدر المناک ہے کہ آج وطن عزیزکچھ ایسے سیاست دانوں کے نرغے میں ہے جن کی حماقتوں ،سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ،ادھر ادھر کی سکیموں ،حریفو ں سے ہاتھ ملانے،نام نہاد جاہلانہ نعروں اور خودی اور خوداری کو بھلاکر اغراض کے لیے تماشا بننے اور تماشا بنانے ،اور ایک دوسرے کی ٹانگیں توڑنے اور ٹانگیں کھینچنے کے سوا ان کو کچھ نہیں آتا ۔انکی ان مکاریوں اور شعبدہ بازیوں کی وجہ سے‘ اس ملک کی ناؤ کبھی آمریت اور کبھی نام نہاد جمہوریت کے‘ طوفانوں سے ‘نبرد آزما رہی اور اب حالات یہ ہیں کہ۔
تیور ترے اے رشکِ قمر دیکھ رہے ہیں ہم شام سے اندازِ سحر دیکھ رہے ہیں
آج سوال صرف یہ ہے کہ پاکستان کو وجود میں آئے 68برس بیت چکے ‘ہم نے اس کے لیے کیا کیاہے ؟بجلی ،پانی ،گیس اور تیل جیسی بنیادی ضروریات کے پراجیکٹس کو کیوں مکمل نہیں کر سکیں ہیں ‘مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے مناسب انتظامات اور سہولیات زندگی میں‘ہم کیوں تمام ممالک سے پیچھے رہ گئے ہیں ؟ جبکہ ان کے علاوہ ‘ہر دور حکومت میں ‘جس بھی برسر اقتدار حاکم نے‘ جس منصوبے کی تکمیل کرنا‘ مناسب سمجھی اس کو عملی جامہ‘ کسی حد تک پہنا لیا گیا اس کے لیے خواہ اسے ملک سے یا بیرون ملک سے وسائل حاصل کرنا پڑے مگر ان عوامی ضروریات کی ‘اشد ضروری بنیادی سہولیات کے لیے ‘کبھی کسی نے سنجیدگی سے اقدام نہیں اٹھائے‘ یہی وجہ ہے کہ ہر برسر اقتدار حکومت کاجب تختہ الٹا یا وہ اپنی مدت پوری کر کے گئی‘ تو انھیں عوام نے عزت دینے کی بجائے‘ ہر اگلے الیکشن میں ذلت اور نفرت دی۔
Pakistan
ملک و قوم کی ترقی تب ہوتی ہے جب معیشت مضبوط ہو ،تعلیمی میدان میں وہ قوم سب سے آگے ہو ‘آپ کچھ نہیں کر سکتے تھے‘ تعلیم کے لیے ہی‘ بنیادی اصلاحات کا نفاز کر دیتے تاکہ ملک کو درپیش مسائل‘ کچھ تو کم ہوتے ۔مگر کسی میدان میں کوئی خاطر خواہ پیش رفعت نہیں کی گئی ‘جو بھی کیا’’ وقت ٹپاؤ پالیسی‘‘ کے تحت کیا ۔جیسے کہ جب جوانوں کو روزگار دینے کا مطالبے سے بچنے کی تدبیر سوچی تو یہ کیا کہ اہلیت کے زمرے میں‘ بی اے کی بجائے بی ایس آنرز کو اہل قرار دیا گیا تاکہ وہ لوگ ‘دوسال تک ملازمت کی بات نہ کریں ۔اسی طرح وکالت کا امتحان‘ دو سال کی بجائے تین سال کا کر دیا گیا تا کہ ایک سال تک کوئی وکیل بن کر‘ حکومت سے نوکری نہ مانگے ۔اور اسی طرح کے سو ہیلے بہانے ہر شعبے میں‘ حاکم وقت نے کچھ اس طرح کی بد نیتی سے کئے کہ اسے عوام کی بد نصیبی کی بجائے ان کی خوش قسمتی اور بہتری کا عندیہ قرار دیا بلکہ اس پر یہ فخر کیا کہ جیسے پرانے شہنشاہوں کی‘ تاریخ لکھنے والے ان لفظوں میں لکھتے ہیں ۔’’ہر کہ آمد عمارت نو ساخت ‘‘۔آج کالج اور یونیورسٹیوں میں بے شمار ایم فل اور پی ایچ ڈی مختلف کنٹریکٹ پر تقریباً آٹھ دس ہزار روپے ماہنامہ معاوضہ پر ٹیوٹر ‘ٹیچر یا لیکچرر کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہیں اور بیشتروہ ہیں کہ جن کے والدین ‘بچوں کی تعلیم پر لاکھوں روپے لگا کر‘ جب اپنے بچوں کا یہ حشر دیکھتے ہیں تو ان کے ہاتھ‘ اللہ کے سامنے حکمرانوں کو ہدایت دینے کی دعا کے لیے اٹھ جاتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں ‘کرپشن کرنے والوں کے لیے سو راستے ہیں ان حالات میں ہر مخلص پاکستانی اللہ کے حضور یہی دعا کرتا ہے کہ اللہ سچے پاکستانیوں کے صبر کے پیمانے کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھے ۔جبکہ جمہور کی یہی دعا حکمرانوں کی کارکردگیوں پر سوالیہ نشان ہے۔
اسی سبب آج لاکھوں پاکستانی سڑکوں پر نکل آئے ہیں یہ آپ سب کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔یہ یاد رہے یہ مسئلہ کسی ایک پارٹی یا ایک انسان کا نہیں ہے‘ افسوس تو یہ ہے کہ اکثروقت کے غدار ہیں جنھوں نے اس پاک سرزمین کے ساتھ ہی نہیں خدا کے ساتھ بھی وفا نہیں کی ہے ‘یہ انہی حکمت عملیوں کے نتیجہ ہے کہ ’’تاحد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں ‘‘کے مصداق‘ اس وقت ملکی منظر نامہ دیکھ کراہل فکرو دانش کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنا سر پیٹ لیں۔ دھرنے ،جلسے ،جلوس ،دمادم مست قلندر، پہیہ جام ،کنٹینر جام، ہڑتالیں، شٹر ڈاؤن، گھیراؤ، جلاؤ، پتھر مارو، ڈنڈا گھماؤ، جوتے چلاؤ، گولی گالی وغیرہ وغیرہ اورا س پر طرہ یہ کہ گھنٹوں ختم نہ ہونے والی تقریریں، پھر نان ایشوز پر گھنٹوں لمبے ٹاک شوز‘ جن میں سیاسی شعبدہ بازوں اور کرپشن کے سرغنوں کی ‘بد کلامیاں اور ایسی ایسی فنکاریاں کہ جو دیکھے وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ میں اس ملک کا باشندہ ہوں ۔۔!کیا اس طرح پاکستان کبھی ترقی کر سکے گا ؟ مجھے عظیم دانشور جناب عطاء الحق قاسمی کا شعر یاد آرہا ہے۔
کہاں لے آئے ہو راے ہبرو تم ! یہاں تو کربلا ہی کربلا ہے
یہ طوفان اس وقت تک‘ در نہیں آئے تھے‘ جس وقت تک کہ ہمارے برسر اقتدار حکمرانوں نے‘ منفی اور انتقامی سیاست کا آغاز نہ کیا تھا ‘اور جب اسی رد عمل کے طور پر اس بنا پر‘ عوامی ردعمل سامنے آیا کہ حکومت کو اپنی طاقت کا ‘انتقامی معاملات میں استعمال کرنے کی بجائے ‘ملک میں اہم مسائل پر‘ توجہ دینے چاہیئے‘ تاکہ معیشیت کو سنبھالہ ملے‘ امن عامہ اور عدل و انصاف کا راج ہو ،کرپشن دور ہو الیکشن کے دوران عوام سے کئے ہوئے وعدوں کے پورا نہ کر سکنے پر ندامتیں نہ ہوں اور ریاکاری سے عوام کو طفل تسلیاں نہ دینا پڑیں‘ مگر۔۔ جیت کے ایسے چاؤ چڑے ہوئے تھے کہ حکمران’’ مست مئے پندار‘‘ ہو کر اس سوچ میں گم تھے کہ’’ ہم چوں دیگر نیست ‘‘ یعنی کہ ہم ہوں اور کوئی دوسرا بھی رہے کے مصداق‘ پوری کابینہ کے دماغ خراب ہو چکے تھے ‘اور حکمرانوں نے بادشاہوں جیسا وہ جاہ و جلال قائم کر رکھا تھا ‘کابینہ کے افراد جس زبان میں اپنے خلاف بات کرنے والوں کے لیے زبان کھولتے تھے نہ وہ الفاظ ان کے لیے زیبا تھے‘ نہ وہ انداز ان کے شایان شان تھا۔
میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ آج ہمارا ملک جن مسائل سے دوچار ہے‘ اس کی بنیادی وجہ نظریاتی محاز پر گرفت کا کمزور ہونا ہے‘ ہم کبھی بھی ان مسائل پر قابو نہیں پاسکتے‘ جب تک ہم جھنڈے تلے جمع نہ ہو جائیں ‘ہمارے قول و فعل میں تضاد ختم نہ ہو جائے اور نشۂ اقتدار خدمت خلق کے جزبے میں تبدیل نہ ہو جائے۔اس حکومت کو بدلنے یا جماعتوں کو بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا ‘بلکہ نظام میں بہتری اور آئین و قانون کے مبہم ضابطوں کی واضح تشریحات کر کے جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے اور حقدار کو اس کا حق جلد سے جلد دلوانا یقینی بنا نا پڑے گا اور اس سلسلے میں ہر ادارے کا سخت احتساب ضروری ہوگا مگر اس سے پہلے اپنا احتساب ضروری ہے ۔اگر ہم کرپٹ نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں خود کو بدلنا ہوگا ‘اور جلد از جلد موجودہ حالات پر قابو پانا ہوگا ‘ورنہ پاکستان میں سیاست کا مطلب صرف اکھاڑ پچھاڑ رہ جائے گا ‘یہ آگ ہم نے خود لگائی ہے‘آج جس میں ہم جل رہے ہیں ،ہمیں اسی راکھ سے اٹھنا ہوگا‘اگر ہم نے اس پر قابو نہ پایا تواب کے مؤرخ یہ لکھے گا۔۔ !اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔