افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) روس، جنگ زدہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے اس ماہ افغان مذاکرات کی میزبانی کرے گا۔امریکا نے اس میٹنگ میں شرکت کی فی الحال تصدیق نہیں کی ہے۔
روس نے منگل کے روز کہا کہ افغانستان میں قیام امن کی کوشش کے تحت وہ افغان مذاکرات کے ایک دور کی میزبانی کرے گا جس میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندے شرکت کریں گے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس میٹنگ میں امریکا کی شرکت کی فی الحال تصدیق نہیں کی ہے تاہم کابل کا کہنا ہے کہ وہ روسی پیش کش پر غور کر رہا ہے۔
روس کی جانب سے یہ پیش کش ایسے وقت کی گئی ہے جب دو روز قبل ہی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی جانب سے افغان حکومت، طالبان رہنماوں اور دیگر فریقوں کو ایک ایسا مسودے کی تجویز پیش کیے جانے کی بات سامنے آئی تھی جس میں افغانستان میں نئے آئین پر اتفاق رائے اور انتخابات منعقد ہونے تک ملک میں ایک عبوری حکومت اور جنگ بندی کمیشن کے قیام کی بات کہی گئی ہے۔
روسی خبر رساں ایجنسی تاس کی خبر کے مطابق روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروفا نے کہا کہ یہ مجوزہ مذاکرات 18مارچ کو ہوں گے جس میں روس، امریکا، چین، اور پاکستان کے نمائندوں کے علاوہ افغان حکومت کا وفد اور طالبان کے نمائندے بھی شرکت کریں گے۔ قطر، جس نے افغان امن مذاکرات کی میزبانی کی ہے، کو ماسکو کی میٹنگ میں اعزازی مہمان کے طور پر مدعو کیا جائے گا۔
زاخاروفا کا کہنا تھا ”بات چیت کے دوران دوحہ میں بین افغان مذاکرات کو آگے لے جانے میں مدد کے طریقہ کار، افغانستان میں تشدد کو کم کرنے اور مسلح تصادم کو ختم کرنے نیز اسے دہشت گردی اور منشیات کے غیر قانونی کاروبار سے پاک اورایک آزاد، پر امن اور خود کفیل ملک کے طور پر ترقی کرنے میں مدد کرنے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔”
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے روسی وزارت خارجہ کے اس بیان کی فی الحال تصدیق نہیں کی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ افغان امن مذاکرات کیسے آگے بڑھیں گے لیکن امریکا کو یقین ہے کہ اس میں پیش رفت ممکن ہے۔
انہوں نے مزید کہا ”امریکا ماضی میں افغان امن مساعی میں مدد کے لیے روس کے ساتھ بات کرتا رہا ہے۔ ہم نے حال ہی میں بھی اس حوالے سے بات چیت کی تھی لیکن فی الحال مجوزہ میٹنگ کے بارے میں امریکا کوئی تصدیق نہیں کرسکتا۔”
ادھر کابل کا کہنا ہے کہ اسے تعطل کی شکار امن مساعی عمل کے سلسلے میں مذاکرات کے حوالے سے روس کی جانب سے میزبانی کی پیش کش موصول ہوئی ہے۔
افغان وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے بتایا ”ہمیں افغانستان کی حکومت کے سربراہ کے نام روسی فیڈریشن کی حکومت کی جانب سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا ہے جس میں کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔”
ماسکو کی جانب سے ثالثی کی یہ کوشش ایسے وقت کی جا رہی ہے جب دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری بات چیت تعطل کا شکار ہے۔ امریکا اور کابل طالبان پر جنگ بندی کے لیے دباو ڈال رہے ہیں لیکن طالبان نے اسے افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے حصے کے طورپر مشروط کر رکھا ہے۔
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
افغانستان کے لیے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے خصوصی سفیر ضمیر کابلوف نے انٹرفیکس نیوز ایجنسی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو کی مجوزہ میٹنگ کا مقصد بات چیت کے لیے تحریک اور تقویت فراہم کرنا ہے تاکہ دوحہ میں مثبت مذاکرات شروع ہوسکیں اور یہ محض باہمی رابطے تک محدود نہ رہیں۔
کابلوف کا کہنا تھا ”ہم افغانستان میں مسئلے کو حل کرنے کے امکانات اور کسی حل تک پہنچنے کی کوشش کے سلسلے میں بات چیت کریں گے۔ اور یہ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ براہ راست علیحدہ میٹنگ کرنا چاہتے ہیں۔”