روس (اصل میڈیا ڈیسک) روس میں آئینی ترامیم کے سلسلے میں ووٹنگ کی جا رہی ہے، جس کے ذریعے ولادیمیر پوٹن سن 2036 تک صدر کے عہدے پر فائض رہ سکتے ہیں۔ لیکن دیگر اہم آئینی ترامیم کونسی ہیں؟ جانیے اس تفصیلی رپورٹ میں۔
روس میں روزانہ آٹھ ہزار افراد کورونا وائرس کی وبا کے چنگل میں پھنس رہے ہیں۔ ملک میں ایسی صورت حال کے باجود آئین میں تبدیلیوں کے حوالے سے ووٹنگ کر وائی جا رہی ہے۔ آج جمعرات سے آئندہ ایک ہفتے کے دوران روسی عوام ان مجوزہ ترامیم کے بارے میں حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ناقدین کے خیال میں ان تبدیلیوں کی نامنظوی ایک حیرت کی بات ہوگی۔ کیونکہ، صدر پوٹن ماضی کے مقابلے میں اپنی مقبولیت میں کمی کے باوجود آج بھی اپنے حامیوں کی ایک بڑی تعداد پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔
روس کے موجودہ قانون کے مطابق صدر پوٹن کو اپنی دوسری چھ سالہ مدت ممکل کرنے کے بعد، سن 2024 میں صدارتی عہدے سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ لیکن بظاہر ان کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آرہا۔
صدر پوٹن آئین میں ترمیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انہیں بطور صدر مزید دو مدتوں کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کی قانونی اجازت مل سکے۔ اگرچہ پوٹن کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے دوبارہ انتخابات میں حصہ لینے کا ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ لیکن، آئینی ترمیم کے ذریعے پوٹن کے لیے سن 2036 تک برسراقتدار رہنے کے دروازے کھل جائیں گے۔ اُس وقت تک پوٹن کی عمر 83 برس ہوگی۔
روس میں پہلے سے ہی ایک ایسا صدارتی نظام موجود ہے جو صدر کو بطور سربراہ مملکت وسیع تر اختیارات فراہم کرتا ہے۔ اور اب یہ مجوزہ تبدیلیاں ان اختیارات میں مزید اضافہ کریں گی۔ مثال کے طور پر صدر ’عام معاملات میں حکومت کو ہدایت‘ دے سکتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کا کام صرف صدارتی احکامات کو منظم انداز میں سرانجام دینا ہوگا۔
دوئم، مجوزہ ترامیم منظور ہونے کی صورت میں صدر کو ملکی وزیراعظم تعینات کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ ابھی تک وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے نامزد امیدوار کو روس کی پارلیمنٹ کی رضامندی کی ضرورت ہوتی تھی۔
یہ نیا قانون ایک اور اہم تبدیلی متعارف کروائے گا: اگر ’ڈوما‘ یعنی روس کا ایوان زیریں، صدر کی جانب سے نامزد کیے گیے امیدوار کو تین مرتبہ مسترد کرتا ہے تو پھر بھی صدر کو اپنا منتخب کردہ امیدوار مقرر کرنےکی اجازت ہوگی۔ اور صدر نئے پارلیمانی انتخابات کا مطالبہ کیے بغیر ہی ایسا کر سکتے ہیں جیسا کہ اب تک روس میں عموماﹰ ہوتا ہے۔ ایک اور تبدیلی کے ذریعے ملکی صدر کو وزیر اعظم کی ذمہ داریاں سنبھالنے میں آسانی پیدا ہوجائے گی اور صدر کابینہ تحلیل کیے بغیر ہی وزیراعظم کی جگہ لے سکیں گے۔ اس کے علاوہ مستقبل میں کابینہ کے انفرادی رکن بھی براہ راست صدر کو جواب دیں گے۔
مزید برآں صدر کو آئنیی عدالت اور سپریم کورٹ دونوں ہی سے ججوں کو برطرف کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ ایسا کرنے کے لیے صدر کو ایوان بالا یعنی ’وفاقی کونسل‘ کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔ ماہرین کے خیال میں ایوان بالا سے منظوری کا عمل صرف ایک رسمی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ صدر کے پاس وفاقی کونسل کے ارکان کی تقرری کا اختیار بھی موجود ہوتا ہے۔
ریفرنڈم کی سرکاری ویب سائٹ پر پوٹن کے لیے صدارتی عہدے پر رہنے کی رعایت کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ روس کے سرکاری اخبار نے ریفرنڈم کو روسی عوام کے ’بہبود کے حق‘ میں بیان کیا ہے جیسے کہ ملازمین کے حقوق کا تحفظ اور معیاری ہیلتھ کیئر کی سہولت۔
ریفرنڈم میں قدامت پسند اور دائیں بازو کے قوم پرست ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ’خاندانی اقدار‘ پر زور دیا گیا ہے۔ ان اقدار کے مطابق شادی کا بندھن صرف مرد اور عورت کا میلاپ ہے اور بچے حکومت کی اولین ترجیحات ہونی چاہییں، جبکہ نوجوان نسل کی پرورش کے دوران ’حب الوطنی‘ کی تربیت لازمی دی جانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ آئین میں روسی زبان کو بھی ’ملک کو چلانے والے لوگوں کی زبان‘ کے طور پر رائج کیا جائے گا۔ مغربی ممالک کے ساتھ روس کے تعلقات تبدیل ہونگے؟
روسی آئین میں مجوزہ ترمیم کا ایک اور مقصد ملک کو بین الاقوامی عدالتوں کے ’نقصان دہ‘ فیصلوں سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ یعنی ترامیم کی منظوری کے بعد مستقبل میں بین الاقوامی قوانین کو روس میں ترجیح نہیں دی جائے گی۔
اس بات کا حقیقی مطلب کیا ہے؟ مثال کے طور پر روسی فوج نے سن 2014 میں مشرقی یوکرائن کی حدود میں ملائیشین ایئر لائن کی پرواز MH17 کو مار گرایا تھا۔ اس جہاز میں سوار 298 مسافر ہلاک ہوگئے تھے۔ ماسکو حکومت کو اس معاملے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسی طرح یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت (ای سی ایچ آر) میں بھی روس کے خلاف ایک قانونی مقدمہ چل رہا ہے۔ آئین میں ترمیم کے بعد روس ’ای سی ایچ آر‘ کے کسی بھی فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گا۔ تاہم روسی شہریوں کے لیے بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کا حق برقرار رہے گا۔