ماسکو (جیوڈیسک) رپورٹ کے مطابق صدر ولادی میر پوٹین یہ پیشکش ایرانی صدرحسن روحانی کے ساتھ جمعہ کو ملاقات کے دوران کریں گے۔ دونوں لیڈروں کے درمیان کرغزستان کے دارالحکومت بشکک میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر ملاقات ہوگی۔ 2010 میں روس کے سابق صدر دمتری میدویدیف نے امریکا اور اسرائیل کے دبا میں آ کر ایران کے ساتھ اس معاہدے کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس پر ایران نے جنیوا میں ایک عالمی عدالت میں روس کے خلاف چار ارب ڈالرز ہرجانے کا دعوی دائر کر دیا تھا۔
اب روس کی جانب سے ایران کو دوبارہ اس جدید نظام کی فروخت کی پیشکش کا تعلق اس بات سے ہوگا کہ وہ جنیوا میں دائر اس مقدمے سے دستبردار ہو جائے۔ واضح رہے کہ روس نے 2007 میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے پانچ جدید فضائی دفاعی نظام مہیا کرنے کے لیے ایران کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ تب ان کی مالیت 80کروڑ ڈالرز تھی۔
یہ میزائل نظام زمین سے طیاروں اور گائیڈڈ میزائلوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب روسی صدر پوٹین ایرانی شہر بوشہر میں جوہری پاور پلانٹ میں دوسرا ری ایکٹر تعمیر کرنے کی غرض سے معاہدے پر بھی دستخط کو تیار ہیں۔
روس ایران کے ساتھ عالمی دبا سے قطع نظر یہ معاہدہ کرنے کو تیار ہے اور وہ حسن روحانی کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے مغربی ممالک پر یہ زور دے رہا ہے کہ وہ ایران پر عائد کردہ پابندیوں کو نرم کر دیں۔ ذرائع کے مطابق اس سال امریکا کی جانب سے ایران پر پابندیوں میں دوسری بار نرمی کی گئی ہے۔
امریکی اقدامات ایرانی صدر حسن روحانی کی جانب سے امریکا سے تعلقات میں بہتری کے اشاروں پر مثبت ردعمل ہے۔ ایران پر کھیل، صحت، قدرتی آفات میں امداد، جنگلی حیات کی دیکھ بھال اور انسانی حقوق کیشعبوں میں عائد پابندیوں میں نرمی کی گئی ہیں۔ اخبار کے مطابق ایران کو پابندیوں میں نرمی دینے کیلئے امریکی بیورو کریسی سے اجازت نہیں لی گئی۔