واشنگٹن (جیوڈیسک) منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے نامزد سربراہ نے روس کے ساتھ ’’واضح انداز‘‘ اختیار کرنے کا عہد کیا ہے؛ اور کہا ہے کہ اذیت کے حربوں کا پھر سے استعمال شروع کرنے سے متعلق وائٹ ہاؤس کے کسی حکم نامے پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔
ری پبلیکن رُکنِ کانگریس، مائیک پومپیو نے، جِن کا کینسس سے تعلق ہے، جمعرات کے دِن سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی سماعت کے دوران کہا کہ ’’آپ کے ساتھ میرا یہ وعدہ رہا کہ میں ہر روز اقتدار کے حامل حلقوں سے سچ ہی بولوں گا‘‘۔
پومپیو نے کہا کہ وہ امریکی انٹیلی جنس برادری کے تجزئے سے متفق ہیں کہ روس نے گذشتہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں مداخلت کی، جس میں ٹرمپ فاتح قرار پائے۔ اُنھوں نے اِس رپورٹ کو ’’درست‘‘ قرار دیا۔
بقول اُن کے، ’’ایک طویل مدت سے روسیوں کی یہی کوشش رہی ہے۔ یہ ایسا معاملہ ہے جسے امریکہ کو سنجیدگی سے لینا ہوگا، اور یہ ایسا خطرہ ہے جو ہم پر اثرانداز ہوسکتا ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’مجھے اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ (امریکہ میں) جاری بحث ایک ایسا معاملہ ہے جسے ولادیمیر پیوٹن دیکھ کر یہ بولیں گے کہ، ’کیا بات ہے‘: یہی تو میری زندگی کا مقصد رہا ہے کہ امریکی سیاسی برادری میں شک کے بیج بوئے جائیں‘‘۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی سینیٹر، ڈیان فائنسٹائن، جِن کا تعلق کیلی فورنیا سے ہے، اس جانب توجہ دلائی کہ صدرتی مہم کے دوران، ٹرمپ نے تفتیش کےدوران مشتبہ دہشت گردوں سے معلومات اخذ کرنے کی غرض سے چھان بین کا اضافی طریقہٴ کار جاری کرنے کی بات کی تھی۔ کئی برس قبل، پومپیو نے خود بھی صدر براک اوباما پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُنھوں نے اذیت کی روایات ختم کرکے ٹھیک نہیں کیا۔ تاہم، جمعرات کو پومپیو نے وعدہ کیا ہے کہ اِس ضمن میں وہ موجودہ معیار پر عمل پیرا ہوں گے۔
فائنسٹائن نے سوال کیا آیا ’’اگر آپ کو صدر یہ حکم دیں کہ سی آئی اے پھر سے تفتیش کے اضافی طریقہٴ کار اپنائے، جو فوج کے ’ریلڈ مینوئل‘ سے مطابقت نہیں رکھتے، تو کیا آپ اس پر عمل درآمد کریں گے؟‘‘
’’بالکل نہیں‘‘۔ پومپیو نے جواب دیا۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ منتخب صدر، یا اُس وقت کے صدر، ایسا کوئی حکم دے سکتے ہیں۔۔۔ میں ہمیشہ قانون کی پاسداری کروں گا‘‘۔
فائنسٹائن نے ادارے کے نامزد سربراہ سے اُن کی جانب سے ایران کے ساتھ ہونے والے بین الاقوامی جوہری معاہدے کی مخالفت کے بارے میں سوال کیا۔ پومپیو نے معاہدے کی تفصیل پر بات نہیں کی، لیکن یہ وعدہ کیا کہ ایران کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد کا قریب سے مشاہدہ کیا جاتا رہے گا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک اور رُکن، رون وائڈن نے، جن کا تعلق اوریگان سے ہے، نامزد اہل کار سے پوچھا کہ ایک عام امریکی شہری سے انٹیلی جنس کے ملکی ادارے اتنا وسیع ڈیٹا کیوں حاصل کرتے ہیں۔
وائڈن نے سوال پوچھا آیا ’’آپ کے خیال میں، اِس کی کوئی حد ہے؛ اِس کی اتنی کیا ضرورت ہے؟‘‘ پومپیو نے توجہ دلائی کہ قانونی سرحدیں پہلے ہی سے طے ہیں؛ لیکن، مزید کہا کہ وہ ضروری ڈیٹا حاصل کرنے کے کام کے حق میں ہیں۔