تحریر : پروفیسر رفعت مظہر خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر’ نقصان تو بہرحال خربوزے کا ہی ہوتا ہے۔ کچھ یہی حال اسلامی دُنیا کا ہے کہ دو حصوں میں منقسم اسلامی دُنیا پر متحارب بڑی طاقتیں اپنے ہتھیار آزما رہی ہیں لیکن عالمِ اسلام پھر بھی ہوش وحواس سے عاری ۔ پہلے شام پر روس نے کیمیکل میزائل داغ کر بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی اور پھر امریکہ بہادر نے ردعمل کے طور پر 59 میزائل داغ کر حکومتی افواج کے اُس ائیربیس کو تباہ کر دیا جہاں سے تین روز قبل زہریلی گیس سے حملہ کیا گیا تھا۔ جس میں 5 فوجیوں سمیت 9 افراد ہلاک ہوئے۔ مخبوط الحواس ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑے فخر سے کہا کہ حملے کا حکم اُس نے دیا تھا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ اسرائیل ‘ ترکی اور سعودی عرب اس حملے پر ٹرمپ کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں جبکہ روس اور ایران مذمتی بیان جاری کرنے میں مصروف ہیں۔ روس نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ امریکہ جنگ سے ایک قدم دور ہے اور آئندہ شام کے خلاف کسی بھی کارروائی کے لیے امریکہ کو روس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روس نے بھی اپنا جنگی بحری بیڑا بحیرہ اسود میں بھیج دیا ہے۔ گویا وہ دن دور نہیں جب شام میدانِ جنگ ہوگا اور وہیں پر امریکہ اور روس زورآزمائی کریں گے۔
اگر گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو یہ سب کچھ عالمِ اسلام کا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ اور فرقہ واریت کے ناسور نے اسلامی دُنیا کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ 39 اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کو یوں تو دہشت گردی کے خلاف ”اکٹھ” کا نام دیا گیا ہے لیکن اس میں ایران’ عراق’ شام اور یمن کو شامل نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممالک دہشت گردی سے محفوظ ہیں؟ کیا یہاں دہشت گردانہ حملے نہیں ہوتے؟ اگر واقعی 39اسلامی ممالک کی افواج دہشت گردی کے خلاف ہی اکٹھی ہوئی ہیں تو پھر تو یہ ممالک سب سے زیادہ ”داعش” کے نشانے پر ہیں۔ بلکہ دوسرے اسلامی ممالک سے بھی بڑھ کر ان کی مدد کی جانی چاہیے۔ لیکن ان ممالک کو تو شامل ہی نہیں کیا گیا۔ ایسے میں اگر ایران نے پاکستانی شمولیت پر اعتراض کیا ہے تو کچھ غلط بھی نہیں کیا۔ لیکن ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ”آبیل مجھے مار” پر ہی عمل کرتے ہیں۔
ہمارا ایک پڑوسی افغانستان ہے جہاں ہمارا جذبۂ جہاد عروج پر تھا لیکن ہوا یہ کہ ساری دہشت گردی سمیٹ کے بیٹھ رہے۔ دوسرا پڑوسی بھارت ہے جس نے آج تک پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا۔ وہ پاکستان توڑنے کا ہر حربہ استعمال کرتا رہتا ہے۔ اب تیسرا پڑوسی ایران، جسے ہم 39ممالک کی فوج میں نہ صرف شمولیت بلکہ اس کی سربراہی قبول کر کے ناراض کر رہے ہیں۔ جب ہم چاروں طرف سے دشمنوں میں گھر جائیں گے تو پھر اس کا انجام کیا ہوگا؟ کیا پاکستان پُرسکون انداز میں سی پیک منصوبے پر عمل درآمد کر سکے گا اور کیا ہماری معیشت پٹری پر چڑھ سکے گی؟ آخر کب تک ہم تابوت اُٹھاتے رہیں گے۔
ہمارا المیہ تو یہ بھی ہے کہ ہم اندرونی طور پر بھی افراتفری کا شکار ہیں اور قومی وملی یک جہتی کہیں نظر نہیں آتی۔ ہمارے رہنما ”کرسی” کے حصول کی تگ ودو میں اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ اُنہیں ملک کی پرواہ ہے نہ مجبور ومقہور قوم کی۔ کپتان صاحب کہتے ہیں کہ وہ ادارے مضبوط کرنے کے لیے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ اُنہوں نے خیبرپختونخوا میں اداروں کو کتنا مضبوط کیا؟ البتہ خاں صاحب کے حوصلوں کی داد دینی چاہیے کہ وہ ایک مہم میں ناکامی کے بعد دوسری مہم کا بہانہ تراش لیتے ہیں۔ زرداری صاحب نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جس طرح اُنہوں نے اکثریت نہ ہونے کے باجود اپنا چیئرمین سینٹ بنا کر دکھایا تھا ویسے ہی اب اپنا وزیراعظم بھی بنا کر دکھائیں گے۔
زرداری صاحب کی شدید خواہش ہے کہ انتخابات اِسی سال ہو جائیں کیونکہ اگر انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوئے تو فروری میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سے چیئرمینی بھی چھن جائے گی۔ دوسری طرف نواز لیگ کو عمران خاں کے ہاتھ میں وزارتِ عظمیٰ کی لکیر نظر آتی ہے کہ زرداری صاحب کے ہاتھ میں۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وطنِ عزیز تو عشروں سے حالتِ جنگ میں ہے لیکن ہمارے بزعمِ خواہش رہنمائوں نے ہمیشہ اقتدار کی جنگ لڑی ہے ملک وقوم کی سلامتی کی نہیں۔ آج بھی جبکہ ہمارے چاروں طرف دشمنوں کی یلغار ہے، ہمارے رہنما ہوس اقتدار میں اندھے ہو چکے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کب تک، آخر کب تک۔