تحریر : سید توقیر زیدی روس اور ترکی کے تعلقات دوبارہ خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن بالغ نظر قیادتوں کو اس بات کا پوری طرح ادراک ہے کہ بعض طاقتوں کو ترکی اور روس کے تعلقات کی یہ قربت پسند نہیں، چنانچہ انقرہ میں روسی سفیر کو قتل کرنے کا اقدام ایک ایسے پولیس اہلکار سے کرایا گیا جس کی وہاں ڈیوتی نہیں تھی، روسی سفیر تصویروں کی ایک نمائش میں خطاب کر رہے تھے کہ انہیں پیچھے سے گولیاں ماری گئیں، انہیں شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اس واقعہ کے باوجود روس نے اعلان کیا ہے کہ ماسکو میں روس، ترکی اور ایران کی جو میٹنگ ہونے والی تھی، وہ طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوگی اور اسے ملتوی نہیں کیا جائیگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر روسی سفیر کو قتل کرنے کا ہدف یہ میٹنگ تھی جو اپنی نوعیت میں بہت اہم ہے اور مشرق وسطی میں پسپا ہوتے ہوئے جنگجوؤں کے مستقبل سے گہرا تعلق رکھتی ہے تو اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔
انقرہ میں روسی سفیر کو جس طرح قتل کیا گیا اس نے بہت سے سوالات کھڑے کر دئے ہیں، اگرچہ گن مین کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ تاہم یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا ترک پولیس کے اندر بھی دہشت گردوں کے ہمدرد پائے جاتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو دنیا کے تمام ملکوں کو بلالحاظ مذہب اور جغرافیے کے متحد ہوکر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا ورنہ اس پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ روسی سفیر پر فائرنگ کرنے کے بعد گن مین نے ”اللہ اکبر” کا نعرہ لگایا اور کہا ”حلب کو مت بھولو” روس حلب سے جنگجوؤں کو نکالنے کے لئے بمباری کر رہا ہے اور ترکی اس معاملے میں روس کا ساتھ دے رہا ہے۔ اس معاملے میں کافی کامیابی ہوئی ہے۔ اس وقت ترکی کو دہشت گردی کی جس لہر کا سامنا ہے، اس کا پس منظر سمجھنے کے لئے ذرا پیچھے مڑ کر دیکھنا ہوگا۔
صدر رجب طیب اردوان کے حکم سے ایک روسی طیارہ مار گرایاگیا تھا جس نے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی بعد کے واقعات اور تحقیقات سے ثابت ہوا کہ اس واقعے کا مقصد بھی دونوں ملکوں کے تعلقات خراب کرنا تھا اور ابتدائی طور پر حالات اس جانب چل بھی پڑے تھے، یہاں تک کہ دونوں ملکوں میں کشیدگی بڑھتے بڑھتے اس سطح پر پہنچ گئی تھی کہ جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا، لیکن بعد میں ایسی معلومات سامنے آئیں کہ اس واقعہ سے ترکی اور روس کے تعلقات خراب کرنے والی قوتوں کا تعلق تھا، چنانچہ دونوں ملکوں نے سمجھ داری کا ثبوت دیا۔ سال رواں کے ماہ جون میں جب ترکی میں ناکام فوجی بغاوت ہوئی تو روس نے اپنی معلومات کی بنیاد پر صدر اردوان کو اس سے باخبر کر دیا تھا، چنانچہ ناکام بغاوت کے بعد حالات معمول پر آتے ہی صدر اردوان نے ماسکو کا دورہ کیا، اس وقت کے بعد سے دونوں ملک تیزی سے تعلقات آگے بڑھا رہے ہیں اور نیٹو کا باقاعدہ رکن ملک ترکی اس مغربی اتحاد سے فاصلے پیدا کرکے روس کے قریب ہو رہا ہے۔
ترکی کے صدر کی یہ پیش رفت بھی بعض ملکوں کو پسند نہیں آئی، چنانچہ ترکی کے حالات خراب کرنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں، ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومت نے تطہیر کا جو عمل شروع کیا ہے وہ صرف فوج اور عدلیہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کالجوں، یونیورسٹیوں اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ان عناصر کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے جن کے بارے میں شبہ ہے کہ ان کی ہمدردیاں مذہبی سکالر فتح اللہ گولن کے ساتھ ہیں، صدر اردوان کو یقین ہے کہ گولن کا اس بغاوت کے سرغنوں سے قریبی رابطہ تھا۔ تاہم ایسے محسوس ہوتا ہے کہ گولن سے اندازوں کی غلطی ہوگئی۔
Andrei Karlov
صدر اردوان نے امریکہ سے گولن کی حوالگی کا مطالبہ کر رکھا ہے، تاہم ابھی تک امریکہ اس پر تیار نہیں ہوا۔ اگرچہ گولن اور ان کے حامیوں نے فوجی بغاوت میں اپنے کسی کردار کی تردید کی ہے، تاہم ترک حکومت کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ بغاوت میں گولن کے حامی شریک تھے۔ لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے پولیس کے اندر پوری طرح تطہیر نہیں کی جاسکی کیونکہ فوجی بغاوت میں پولیس اردوان کے ساتھ کھڑی تھی، اس لئے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا گیا کہ اکا دکا پولیس اہلکاروں کی ہمدردیاں بھی باغیوں سے ہو سکتی ہیں پولیس کے جس اہلکار نے نمائش میں گولی چلائی، اس کی وہاں ڈیوٹی نہیں تھی لیکن کسی نے یہ بات نوٹ نہیں کی کہ اگر پولیس اہلکار اس مقام پر ڈیوٹی پر نہیں تھا تو پھر اس کی آمد کا کیا مقصد ہے۔۔؟
ترکی میں گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی کے ایسے بڑے بڑے واقعات ہوئے ہیں جن کا مقصد ترکی اور حکومت کو بدنام کرنا ہے۔ پولیس فورس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ کرد باغیوں اور ترک حکومت کے اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور کرد باغی حکومت کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔شام کے متعلق روس اور ترکی کا جو موقف ہے اس پر روس اور ترکی ڈٹے ہوئے ہیں اور ان پر جنگجوؤں کی اس دھمکی کا کوئی اثر نہیں ہوا کہ اگر ہم حلب میں مریں گے تو تم انقرہ میں مرو گے۔ ترکی آئی ایس آئی ایس کی دھمکیوں کے بعد مسلسل دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور اب کی بار روسی سفیر کو نشانہ بنا کر روس کو بھی پیغام دینے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوگئی ہے کیونکہ وزرائے خارجہ کا وہ اجلاس بغیر کسی تبدیلی کے ہو رہا ہے جو آج ماسکو میں طے شدہ تھا اور جس میں ترکی اور ایران کے وزرائے خارجہ شرکت کرنے والے ہیں۔