تحریر : آصف خورشید رانا روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے شام سے فوجوں کے انخلاء کے اعلان سے عالمی ماہرین کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ تاہم اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ روسی انخلاء کے پیچھے کچھ اور مقاصد بھی ہو سکتے ہیں ۔انخلاء کا اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا جب جنیوا میں شام کے مسئلہ پراہم مذاکرات جاری ہیں ۔ امریکی صدر نے روسی انخلاء کے بعد روس کے صدر سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور ایک بار پھرشام میں جاری پانچ سالہ خانہ جنگی کے خاتمہ کے لیے ”سیاسی تبدیلی ” پر زور دیا ۔ دونوں رہنمائوںکے درمیان ہونے والی گفتگو میں جنگی اقدامات کی روک تھام اور روسی فوج کے انخلاء پر بات چیت ہوئی ۔ البتہ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے انخلاء پر محتاط ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ روس کے ارادوں کو دیکھنا ہو گا۔
یہ واضح ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے جس مجوزہ سیاسی حل کی تجویز دی جارہی ہے اس میں شام کے صدر بشار الاسد کا اپنے عہدے سے علیحدگی ضروری ہے ۔ اس فارمولے کو خطے کے دیگر ممالک سعودی عرب، ترکی اور یورپ کی حمایت بھی حاصل ہے ۔مشرق وسطیٰ کے کچھ تجزیہ نگار کا یہ بھی کہنا ہے کہ روسی فوج کے انخلاء سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس اور بشار الاسد کے درمیان شام خانہ جنگی کے ممکنہ حل پر اختلافات پیدا ہوگئے ہیں ۔ شام کی بشار الاسد حکومت کسی صورت بھی اقتدارسے دستبردار ہونے یا اقتدار میں کسی دوسرے گروپ کو شریک کرنے کے لیے تیار نہیںاور تمام جنگجو گروپوں کو سختی کے ساتھ کچلنا چاہتی ہے تاہم روس کی حکومت جو چند دن پہلے تک بشارالاسد کے موقف سے سو فیصد متفق تھی اب اس مسئلہ کے لیے سیاسی عمل کی حمایت کر رہی ہے۔
البتہ شامی صدر کی جانب سے جاری بیان میں روسی فوج کے انخلاء کی حمایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اس فیصلہ سے اتفاق کرتے ہیں کیونکہ یہ فیصلہ زمینی صورتحال کو سامنے رکھ کر گیا ہے ۔ اس بیان سے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ روس اور شام میں خانہ جنگی کے خاتمہ پر کچھ اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ شام میں جاری خانہ جنگی کو پانچ سال ہو چکے ہیں جس میں اب تک اڑھائی لاکھ افراد جن میں عام شہری ، فوجی اور جنگجو افراد شام ہیں مارے جا چکے ہیں جبکہ زخمی ہونے والے افراد کی تعدا دس لاکھ سے ذیادہ ہے۔
Syria
انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ ہے ۔23ملین سے ذیادہ آبادی رکھنے والے شام میں چھ ملین سے ذیادہ افراداپنے ہی ملک میں بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ اس تباہ کن خانہ جنگی کے باعث شام چھوڑ کر ملک سے باہر کیمپوں میں یا کسی دوسرے ممالک میں جانے والے افراد کی تعدا چار ملین سے ذیادہ ہے ۔ جو افرادشام کے اندرہیں وہ بھی بھوک اور بیماری کے ہاتھوں انتہائی بے بسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے اداروں کو ان افراد تک رسائی اور ضروری اشیاء کی ترسیل میں جاری جنگ کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ شام سے اپنے گھر وں کو چھوڑ کر جانے والے بچوں بزرگوں اور خواتین سمیت دیگر کی حالت زار قابل رحم ہے۔ ان میں سے اکثر تو اپنے ہمسایہ ممالک لبنان ، ترکی اور عراق میں واقع کیمپوں میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔
جبکہ بہت سے افراد پناہ کے لیے یورپی ممالک کا رخ کر رہے ہیں جس کے دوران بہت سے افرادسمندر میں بے رحم موجوں کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ ابھی تک اکثریت سرحدی علاقوں میں بے یار ومدد گار منتظر ہیں ۔شام کی معیشت تباہ ہو چکی ہے کاروبار ختم ہو چکے ہیں ۔ ورلڈ وژن کے مطابق خانہ جنگی میں 275ارب امریکی ڈالر کانقصان ہو چکا ہے جو کہ جنگ سے پہلے شام میں صرف صحت کے بجٹ سے 150گنا ذیادہ ہے ۔ اسی ادارے کے مطابق اگر یہ جنگ جاری رہی تو 2020میں یہ نقصان بڑھ کر 1.3ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ سکتا ہے ۔ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق 2014کے درمیان تک شام کے کیپٹل سٹاک میں 70سے 80 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ۔شام میں جاری اس خانہ جنگی نے ہمسایہ ممالک کی معیشت پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے۔
عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق لبنان کی معیشت پر چھ لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کی آمد کی وجہ سے2.5ارب سالانہ ڈالربوجھ بڑھ رہا ہے جبکہ ترکی پہلے ہی مزید شامی مہاجرین پر خرچ کرنے کے لیے ہاتھ کھڑے کر چکا ہے ۔اس طرح شام کی خانہ جنگی نے نہ صرف شام بلکہ ہمسایہ ممالک کے لیے بھی مشکلا ت کھڑی کر دی ہیں اور دنیا کا سب سے بڑا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے جو روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ شام کی خانہ جنگی میں جہاں جنگجو گروپ اور بشار الاسد حکومت فریق ہیں وہاں ترکی سعودی عرب ، لبنان اور ایران بھی فریق بن کر سامنے آ چکے ہیں جبکہ امریکہ ،روس اور یورپ کے دیگر ممالک بھی اس مسئلہ کے حل کے لیے نہ صرف سیاسی طور پر حصہ لے رہے ہیں بلکہ عسکری طور پر بھی مختلف گروہوں کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں ۔ اس وقت داعش وہ واحد دہشت گرد گروہ ہے جس کے خلاف تمام ممالک اپنے اپنے طور پر عسکری جنگ لڑرہے ہیں۔
Hizbullah
ایران اور لبنان کی تنظیم حزب اللہ واضح طور پر شام حکومت بشار الاسد کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ ان کی افواج کے زمینی دستے بھی بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے جنگجو گروپوں کے خلاف حملوں میں حصہ لے رہے ہیں ۔ سعودی عرب اور ترکی کی جانب سے سنی جنگجوگروپوں کو حمایت حاصل ہے ۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ شام میں سنی عوام کی اکثریت موجود ہے جبکہ بشار الاسد کی حکومت کی سنی عوام پر ہونے والے ظلم کے نتیجہ میں یہ گروپ عسکری جدوجہد کرنے پر مجبور ہوئے ۔عالمی برادری نے اس مسئلہ کا سیاسی حل نکالنے کے لیے کئی کوششیں کیں لیکن بشارالاسد حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس مسئلہ کا کوئی سیاسی حل نہ نکل سکا اور لاکھوں انسانی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے جبکہ لاکھوں افراد جن میں بچوں عورتوں اور عمر رسیدہ افراد کی بڑی تعدادشامل ہیں خوف کے سائے میں بھوک افلاس اور بیماریوں کے ہاتھوں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔روس شام اور ایران کا پرانا حلیف ہے اور اسے مشرق وسطیٰ میں اپنا فوجی اڈا بنانے کے لیے شام سے زیادہ بہتر کوئی جگہ نہیں مل سکتی چنانچہ بشار الاسد کی دعوت پر ستمبر 2015میں جنگجو گروپوں کے خلاف فوجی کارروائی کاآغاز کیا۔
ایران اور شام نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا تاہم ترکی سعودی عرب اور امریکہ نے اس فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے جنگ کو مزید بھڑکانے کا سبب قرار دیا ۔ تقریبا ً پانچ ماہ سے زائد عرصہ میں روس نے داعش کے خلاف کارروائیوں کے ساتھ ساتھ سنی جنگجوگروپوں کے خلاف بھی حملے کیے جبکہ ترکی سرحد کی خلاف ورزی پر ترک فضائیہ نے روس کے طیاروں کو نشانہ بنایا جس سے دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے ۔ تاہم پانچ ماہ کی زائد مشق سے روس نے شاید اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ خانہ جنگی کا واحد حل سیاسی تبدیلی ہے محض طاقت کے زور پر سنی اکثریت کو دبایا جانا ممکن نہیں ۔ البتہ داعش کی موجوگی خطہ میں مسلسل خطرہ پیدا کیے ہوئے ہے۔
ترکی میں ہونے والے دھماکوں میں بھی داعش یا ان عناصر کا ہاتھ ہو سکتا ہے جو ترکی کی جانب سے سیاسی حل اور سنی اکثریت کو حکومت میں شامل کرنے کے موقف سے ناراض ہیں۔ سعودی عرب ترکی ایران اورلبنان اس موقف پر متفق نظر آتے ہیں کہ داعش کی موجودگی سے مشرق وسطیٰ کے حالات کسی صورت بہتر نہیں ہو سکتے اور ان ممالک کے آپس کے اختلافات داعش کو کمزور کرنے کی بجائے مزید مضبوط بنانے کا سبب بن رہے ہیں ۔ اس لیے ہونا یہ چاہیے کہ بشار الاسد کو ہٹ دھرمی چھوڑ کر سیاسی حل کے لیے مجبور کیا جائے ورنہ شام کا بحران حل ہونے کے بجائے مزید بڑھتا جائے گا اور سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ریاستوں کے تعلقات ایران کے ساتھ مزید کشیدہ ہوتے جائیں گے اور مشرق وسطیٰ سلگتا رہے گا ۔روسی انخلاء کے بعد نجنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت ہونے کی توقع کی جارہی ہے جبکہ سیاسی تبدیلی کی راہ بھی ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے۔