واشنگٹن (جیوڈیسک) شام میں فضائی کارروائی کے لیے، روسی لڑاکا طیاروں نے بدھ کو دوسرے روز بھی ایران سے پرواز بھری۔
روسی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ ہمدان کے فضائی اڈے سے اُڑنے والے لڑاکا جہازوں نے داعش کے شدت پسندوں کو ہدف بنایا۔ منگل کو فضائی کارروائی کے پہلے مرحلے کے دوران دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کے علاوہ جہبت فتح الشام کا جہادی گروپ تھا، جسے پہلے ’النصرہ محاذ‘ کہا جاتا تھا۔
وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان کے بیان کو مسترد کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ پروازیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی ہیں جس کے تحت ایران کو لڑاکا طیاروں کی فروخت یا منتقلی ممنوع ہے۔
ایرانی پارلیمان کے اسپیکر علی لاریجانی نے بدھ کے روز اِس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے روس کو اپنی حدود میں اڈے کے استعمال کی مستقل اجازت نہیں دی۔
روس گذشتہ برس کے ستمبر سے صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں فضائی حملے کرتا رہا ہے۔ تاہم، اِس ہفتے تک یہ پروازیں شام یا پھر خود روس سے پرواز بھرتی رہی ہیں۔
الیکس وتنکا ’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘ اور ’جمیس ٹاؤن فاؤنڈیشن‘ کے ایک سینئر فیلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نئی پروازیں ایک نیا معاملہ ہے۔
وتنکا کے بقول ’’میں نہیں سمجھتا کہ سنہ 1979 کے بعد ایران نے اب تک کسی دوسرے ملک کو فوجی اڈے کے استعمال کی اجازت دی ہو۔ اس سے روس کو ایران میں آنے کی اجازت ایسی ہے جو کبھی کسی اور کو نہیں دی گئی‘‘۔
شمالی قفقان میں روس کے ’موزڈو‘ فوجی فضائی اڈے کے برعکس، ہمدان ایئر بیس سے لڑاکا جہازوں کی پرواز سے تقریباً 2000 کلومیٹر کی جگہ 700 کلومیٹر سے کم کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔
روسی فیڈریشن کونسل کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ، وکٹر اوزروف نے کہا ہے کہ پرواز کا فاصلہ کم ہونے سے روسی فضائی حملوں کی پختگی میں اضافہ ہوگا، جس سے پائلٹوں کو یہ اجازت ہوگی کہ وہ شامی باغیوں کے ذخیرے میں جدید زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کے استعمال سے بچ سکیں گے۔