روس (اصل میڈیا ڈیسک) روسی الیکشن کے ابتدائی نتائج کے مطابق صدر پوٹن کی حامی سیاسی جماعت یونائٹڈ رشیا نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ کریملن نے اس الیکشن کو منصفانہ قرار دیا ہے جبکہ یورپی یونین نے اس انتخابی عمل کی شفافیت پر اعتراضات کیے ہیں۔
روسی حکام نے بتایا ہے کہ ویک اینڈ پر منعقد کیے گئے پارلیمانی الیکشن کے ووٹوں کی گنتی کا عمل 98 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق یونائٹڈ رشیا 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کر چکی ہے۔ ان ابتدائی نتائج کے مطابق اپوزیشن کمیونسٹ پارٹی کو 20 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ یاد رہے کہ 2016ء میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں یونائٹڈ رشیا کو 54 فیصد عوامی حمایت حاصل ہوئی تھی۔
حالیہ الیکشن کے ان نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ اس مرتبہ بھی 450 نشستوں والی روسی پارلیمان ‘دوما‘ میں صدر پوٹن کی حامی اس پارٹی کے ممبران کی تعداد دو تہائی سے زائد ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ نئی روسی حکومت کو بھی قانون سازی اور دیگر اہم پالیسی معاملات میں کسی پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت تشکیل دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
روسی صداری دفتر کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق یونائٹڈ رشیا نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ملک کی مرکزی سیاسی جماعت ہے۔ اس پارٹی کے قیام میں روسی صدر ولادی میر پوٹن کا بنیادی کردار تھا۔ کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ یہ الیکشن شفاف اور منصفانہ تھے۔
ولادیمیر ولادیمیروِچ پوٹن سات اکتوبر سن انیس سو باون کو سابق سوویت شہر لینن گراڈ (موجود سینٹ پیٹرز برگ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ولادیمیر پوٹن تھا، جو ایک فیکٹری میں بطور فورمین ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا بچپن ایک ایسے اپارٹمنٹ میں گزارا، جہاں تین کنبے رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے سن 1975 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
دیمتری پیسکوف نے مزید کہا کہ کمیونسٹ پارٹی نے اس الیکشن میں بہتری دکھائی ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی ملکی سیاست میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن جس انداز میں منعقد کیے گئے ہیں، وہ ایک قابل تعریف عمل ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن اور صدر پوٹن کے ناقدین نے اس الیکشن میں ‘منظم دھاندلیوں‘ کا الزام عائد کیا ہے۔ کیمونسٹ پارٹی کے کچھ اراکین نے الزام عائد کیا ہے کہ بالخصوص ماسکو میں نیا الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم اس لیے استعمال کیا گیا تاکہ یونائٹڈ رشیا کے مخالفین کو ووٹ ڈالنے سے روکا جا سکے۔ اس پارٹی کے کچھ ارکان نے ماسکو میں مظاہروں کی کال بھی جاری کی ہے۔
صدر پوٹن کے ناقد اور اپوزیشن سیاسی رہنما الیکسی ناوالنی کے ایک سیاسی ساتھی لوبوف سوبول نے کہا، ”اتنے بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں کے بعد اس الیکشن کو ہم منصفانہ ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ ان نتائج کو ہم شفاف، غیرجانبدار اور قانونی بھی قرار نہیں دے سکتے۔‘‘ ناوالنی کی جمہوریت نواز تحریک کو ‘انتہا پسند‘ قرار دے کر جون میں ممنوعہ قرار دے دیا گیا تھا جبکہ ناوالنی خود اس وقت جیل میں ہیں۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے ترجمان پیٹر سٹانو نے بھی روسی پارلیمانی الیکشن کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن سے قبل خوف و ہراس پھیلانے کا جو ماحول تھا، وہ قابل مذمت ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس الیکشن کی نگرانی کے لیے عالمی معائنہ کاروں کی کمی بھی تھی، جس سے اس انتخابی عمل کے شفاف ہونے کے بارے میں تصدیق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔