تحریر : محمد اشفاق راجا ترکی میں 15 جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کا فوری نتیجہ تو یہ نکلا ہے کہ ترکی اور روس ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے ہیں۔ اگرچہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ صدر رجب طیب اردوان اندرونی حالات کو مستحکم کرنے کے بعد نیٹو کو ہی خیر باد کہہ دیں۔ ترکی نیٹو کا دیرینہ رکن ہے اور اس حیثیت میں اس نے اپنی فوج اور اسلحہ کو جدید بنایا ہے۔ امریکہ کے ایف 16 طیارے ترکی میں اوورہال ہوتے ہیں اور وہ یہ طیارے دوسرے ملکوں کو بھی فروخت کرسکتا ہے، تاہم اب یہ دور ختم سمجھیں۔ ترکی نیٹو میں رہے یا نہ رہے، امریکہ کے ساتھ اس کا ہنی مون ختم ہوگیا۔ وزیراعظم بن علی بلدرم سمیت کابینہ کے تین ممتاز وزیر امریکہ پر براہ راست یہ الزام لگا چکے ہیں کہ ناکام فوجی بغاوت میں امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کا ہاتھ تھا۔
اگر یہ الزام درست ہے تو پھر ملین ڈالر کا سوال ہے کہ کیا وہ اپنے اتحادیوں کی حکومتوں کا تختہ الٹنے میں بھی کوئی پس و پیش نہیں کرتا؟ فتح اللہ گولن جن کی خدمت تحریک کو اب ترکی میں دہشت گرد تحریک کے نام سے یاد کیا جا رہا ہے۔ 1997ء سے ریاست پنسلوانیا میں مقیم ہیں اور کہا جاتا ہے کہ انہیں گرین کارڈ ترکی میں امریکہ کے ایک سابق سفیر کی سفارش پر جاری کیا گیا تھا ناکام بغاوت میں جو فوجی افسر شریک ہوئے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کی تحریک سے متاثر تھے۔ اگرچہ یہ تحریک بظاہر فلاحی اور خدمت کے کام کرتی ہے۔ تعلیمی ادارے قائم کرتی اور چلاتی ہے۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر ہزاروں جانوروں کی قربانی کرتی اور غرباء میں قربانی کا گوشت تقسیم کرتی ہے۔
فتح اللہ گولن کی اس تحریک سے فوج، عدلیہ، بیوروکریسی اور بہت سے سرکاری اداروں میں بڑی تعداد میں لوگ متاثر تھے۔ خود صدر اردوان کا کہناہے کہ وہ اللہ اور عوام سے معافی کے خواستگار ہیں کہ وہ طویل عرصے تک گولن کا اصل چہرہ پہچان نہ سکے اور ان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار رہے۔ دونوں الیکشن میں بھی ایک دوسرے کے حلیف رہے لیکن اردوان کو گولن کا اصل چہرہ پہچاننے میں دیر تو ضرور ہوگئی لیکن چند سال سے وہ ان کے بارے سب کچھ جان چکے تھے کیونکہ اردوان کی حکومت کے خلاف دو سال قبل استنبول اور دوسرے شہروں میں جو پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے، ان کے پیچھے بھی گولن کا ہاتھ تھا اور اب تو ان کے بارے میں ایسے ایسے انکشافات ہو رہے ہیں کہ بظاہر ان پر یقین کرنا مشکل نظر آتا ہے۔
Fethullah Gülen
مثلاً ”ٹائمز” لندن کی یہ خبر کہ فتح اللہ گولن نے ایک برطانوی رکن پارلیمنٹ کو اردوان کے خلاف جعلی پروپیگنڈہ فلم بنانے کے لئے ڈیڑھ لاکھ ڈالر دئیے تھے اس سارے بحران میں اگر کوئی ایک شخص اردوان کے کام آیا ہے تو وہ روسی صدر پیوٹن ہیں جنہوں نے انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر انہیں خبردار کر دیا تھا کہ ان کے خلاف بغاوت کی کھچڑی پک رہی ہے۔ بغاوت کو ناکام بنانے کے بعد اردوان تطہیر کا جو عمل جاری رکھے ہوئے ہیں، اس کی معلومات بھی صدر پیوٹن نے مہیا کی ہیں۔
امریکہ میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر سی آئی اے کے ایک سابق افسر نے الزام لگایا ہے کہ وہ روس کے ایجنٹ ہیں، سی آئی اے افسر کی اس رائے کو آسانی سے چیلنج نہیں کیا جاسکتا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پیوٹن کی رسائی اتنی دور تک ہے کہ ایک صدارتی امیدوار بھی ان کے ملک کا ایجنٹ بن سکتا ہے تو پھر تصور کیا جاسکتا ہے کہ روس کی رسائی کہاں تک ہوگی؟ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا، طیب اردوان کے حکم سے ایک روسی طیارہ مار گرایا گیا تھا جس نے غلط یا صحیح طور پر ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔
رجب طیب اردوان اصرار کرتے رہے کہ طیارے نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جبکہ پیوٹن نے یہ بات نہیں مانی تھی۔ البتہ بغاوت سے چند روز قبل اردوان نے پیوٹن سے معافی مانگ لی تھی۔ ہوسکتا ہے اردوان کا یہ انداز پیوٹن کو پسند آگیا ہو اور انہوں نے بغاوت کی پخت و پر کے متعلق پیشگی اطلاعات دے کر اردوان کی زندگی اور ان کا اقتدار بچا لیا ہو۔ اب 9 اگست کو صدر پیوٹن اور اردوان کی ملاقات ہو رہی ہے جس میں دونوں صدور کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جس کے نتیجے میں ترکی شام کے متعلق اپنے طرز عمل میں تبدیلی لائیگا اور پیوٹن سے مل کر نئی پالیسی وضع کرے گا۔
Russia
اس طرح روس کو فوجی لحاظ سے گھیرنے کا منصوبہ بھی ناکام ہو جائیگا اور طویل عرصے کے بعد روس اس ضمن میں سکھ کا سانس لے گا۔ روس خطے میں اپنا کردار بڑھا رہا ہے اور امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اگلے 20سال میں روس اور چین امریکہ کیلئے حقیقی خطرہ بن کر ابھریں گے اور ان دونوں ملکوں کے ساتھ اس کیمپ میں پاکستان اور شمالی کوریا بھی شامل ہوں گے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی جاسوسی کرنے والے ایک امریکی ایجنٹ کو جسے پاکستان نے بلیک لسٹ قرار دے کر ملک سے نکال دیا تھا، دوبارہ پاکستان میں داخلے کی کوشش کی گئی اور چودھری نثار علی کی چوکسی کی وجہ سے گرفتار کرلیا گیا۔ عین ممکن ہے اس کے ڈانڈے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کسی بڑے منصوبے سے ملتے ہوں۔
اردوان اب ترکی میں اپنا اقتدار مستحکم کر رہے ہیں۔ اتوار 7 اگست کو استنبول میں تیس لاکھ افراد کی ایک ریلی نکالی گئی جسے ”جمہوریت اور شہداء کی ریلی” کہا گیا۔ اس ریلی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں طیب اردوان کی دو کٹر مخالف جماعتیں بھی شریک ہوئیں۔ جنہوں نے شریک ہوکر یہ پیغام دیا کہ وہ جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ اس ریلی میں ہر طرف ترکی کے سرخ پرچموں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ یہ ریلی ان جمہوری ریلیوں کا نقطہ¿ اختتام تھا جو 15 جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے ہر روز نکالی جا رہی تھیں۔
اردوان نے اپنے حامی عوام سے کہا تھا کہ وہ جمہوریت کو خطرے کے ٹل جانے تک سڑکوں پر رہیں، ایسا لگتا ہے اب محسوس کرلیا گیا ہے کہ خطرہ ٹل چکا ہے۔ ریلی میں مرنے والوں کے لئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اور دعائیں مانگی گئیں اور قومی ترانہ بجایا گیا۔ تقریب کے لئے 200 فٹ اونچا سٹیج بنایا گیا تھا اور اسے قومی پرچم کے ساتھ ساتھ مصطفی کمال پاشا اور اردوان کی تصویروں سے سجایا گیا تھا۔ ان تمام شہداء کے نام باری باری احترام کے ساتھ پکارے گئے جو 15 جولائی کی رات شہید ہوگئے تھے۔