تہران (جیوڈیسک) ایران کے صدر حسن روحانی اور ان کے روسی ہم منصب ولادی میر پوتین نے شام کے شمالی شہر حلب میں اسدی فوج کی ”دہشت گردوں” کے خلاف فتح کا خیرمقدم کیا ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق دونوں صدور نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے اور شام کی تازہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
اس کے بعد صدر حسن روحانی نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ”شامی فوج کی فتح کا ایک واضح پیغام یہ ہے کہ دہشت گرد کبھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتے۔ہمیں دہشت گردوں کو جنگ بندی سے فائدہ اٹھا کر شام کے دوسرے علاقوں میں مجتمع ہونے اور نئے اڈے بنانے سے روکنا ہو گا۔
صدر پوتین نے بھی شام کے دوسرے بڑے شہر میں باغیوں کی شکست کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ روس اور ایران کے درمیان تعاون کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تعاون کا نتیجہ عالمی دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی فتح کی صورت میں نکلا ہے۔
انھوں نے کہا کہ شام میں جاری تنازعے کے حل کے لیے قزاخستان میں امن بات چیت ہوگی لیکن انھوں نے اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی ہے۔واضح رہے کہ ایران اور روس شامی صدر بشارالاسد کے سب سے بڑے پشتیبان ہیں اور وہ بھی ان کے موقف کے عین مطابق تمام باغی قوتوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔
شامی فوج نے اسی ہفتے حلب کے مشرقی حصے کا دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔اس حصے پر سنہ 2012ء سے مختلف باغی گروپوں کا قبضہ چلا آرہا تھا۔ شامی فوج اور روس کے لڑاکا طیاروں نے گذشتہ ڈیڑھ ایک ماہ کے دوران میں شہر کے مختلف علاقوں پر تباہ کن بمباری کی تھی۔
ایران کی پروردہ اور تربیت یافتہ ملیشیاؤں نے بھی شامی فوج کی فتح میں اہم کردار ادا کیا ہے اور باغیوں کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا اور وہ شامی حکومت کی شرائط پر جنگ بندی پر مجبور ہوگئے تھے۔ حلب پر شامی فوج کے کنٹرول کے بعد مزید ہزاروں شہری در بدر ہوگئے ہیں اور باغی جنگجو دوسرے علاقوں کی جانب چلے گئے ہیں۔
روس 30 ستمبر2015ء سے شام میں داعش اور صدر بشارالاسد کے مخالف دوسرے ”دہشت گرد” گروپوں کے خلاف فضائی حملے کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں ایک تہائی عام شہری ہیں۔
روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے اگلے روز دعویٰ کیا ہے کہ شام میں ستمبر 2015ء کے بعد ان کی فضائیہ کے حملوں میں قریبا پینتیس ہزار باغی جنگجو ہلاک ہو گئے ہیں۔