حلب (جیوڈیسک) شامی اور روسی طیاروں نے باغیوں کے زیر قبضہ حلب کے مشرقی حصے پر تباہ کن بمباری جاری رکھی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ہفتے کے روز مزید پچیس افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ اس دوران شامی فوج اور اس کی اتحادی ملیشیاؤں نے ہفتے کے روز حلب کے شمال میں پیش قدمی کرتے ہوئے باغیوں کے زیر قبضہ ایک کیمپ پر قبضہ کر لیا ہے اور اس طرح باغیوں کے کنٹرول والے مشرقی حصے میں اپنا محاصرہ مزید سخت کردیا ہے۔
شامی فوج اور اس کی اتحادی شیعہ ملیشیائیں روس کی فضائی مدد سے حلب پر مکمل کنٹرول کے لیے باغی گروپوں کے خلاف جنگ آزما ہیں۔شامی فوج نے حلب سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع باغیوں کے زیر قبضہ ہندرات کیمپ پر قبضے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ لڑائی میں ”بڑی تعداد میں دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں”۔
شامی اور روسی طیاروں کے جمعرات کی شب سے حلب کے مشرقی حصے پر فضائی حملے جاری ہیں اور ان میں اب تک بیسیوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔شہر کے مکینوں کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز کے بعد سے یہ سب سے تباہ کن بمباری ہے اور میزائلوں کے حملوں میں متعدد عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں۔ حلب سے تعلق رکھنے والے ایک باغی گروپ کے ذرائع کے مطابق زیادہ تر فضائی حملے روسی لڑاکا طیاروں نے کیے ہیں اور ان کے بعد جنگ بندی کی بحالی کی رہی سہی امید بھی ختم ہوگئی ہے۔
شامی فوج کے ایک ذریعے نے برطانوی خبررساں ایجنسی رائیٹرز کو بتایا ہے کہ جمعرات کو اعلان کردہ آپریشن اپنے منصوبے کے مطابق جاری ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کس قسم کے ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ فوج گائیڈڈ اور ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے والے ہتھیار(میزائل؟) استعمال کررہی ہے۔ان سے خفیہ پناہ گاہوں ،بنکروں اور سرنگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
حلب سے تعلق رکھنے والے ایک امدادی گروپ کے ترجمان عمار السلمو کا کہنا ہے کہ اس فضائی بمباری سے پوری پوری عمارتیں یک لخت تباہ ہورہی ہیں۔بیشتر مجروحین اور مقتولین ملبے تلے ہی دبے ہوئے ہیں کیونکہ شہری دفاع کا آدھے سے زیادہ عملہ اور مشینری تو کام کرنے کے قابل ہی نہیں رہے ہیں۔
برطانیہ میں قائم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق نے جمعہ کو حلب میں تباہ کن بمباری میں سینتالیس افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی جبکہ عمار السلمو کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔