واشنگٹن (جیوڈیسک) موسیماتی تبدیلی پر روانڈا میں منعقد ہونے والے اجلاس میں شریک وفود نے ریفریجیٹروں اور ایئر کنڈیشنروں میں استعمال ہونے والی ‘گرین ہائوس گیسز’ کو ترک کرنے کا سمجھوتا طے کرنے کی توقع کا اظہار کیا ہے۔
کگالی میں جمعے کے روز اجلاس کے بعد امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ شریک ملکوں کا گیسوں کے استعمال کو ختم کرنے کی مختلف حتمی تاریخوں پر اتفاق ہو سکتا ہے، جس سے اس معاملے پر پیش رفت کی توقعات بڑھ گئی ہیں۔
امریکہ اور دیگر مغربی ملک سنہ 2021 تک ہائڈرو کاربن کے استعمال کو ترک کرنے کا آغاز کرنا چاہتے ہیں، جب کہ دیگر ملک، مثال کے طور پر بھارت، دھیرج سے آگے بڑھنا چاہتا ہے، اور 2030ء میں گیسز کے استعمال میں کمی لانے پر رضامند ہے۔
کیری نے کہا کہ ”کسی بھی ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اِس اجتماعی کاوش سے پیچھے ہٹے اور کثیر ملکی کوشش کو معنی خیز بنانے کے ہدف کو کوئی پس پشت نہیں ڈال سکتا”۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کابن گیسز پر بندش، جس میں ‘ایروسولس’ (پانی کے مہین قطرے یا کسی ٹھوس مادے کے ذرات جو فضا میں معلق ہوں)، اس صدی کے آخر تک عالمی درجہ حرارت میں نصف ڈگری تک کی کمی لاسکتے ہیں۔
کیری نے کہا ہے کہ ”اگر ہم اس ترمیم پر عمل درآمد پر آمادہ ہوں کہ تپش کو نصف ڈگری تک روکا جائے، تو پھر ہمیں یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ ہم واقعی ایک دوررس نوعیت کا کام انجام دے رہے ہیں”۔ پیرس سمجھوتا گذشتہ سال دسمبر میں منظور ہوا۔ کگالی میں جن باتوں پر اتفاق رائے ہوتا ہے اس کے نتیجے میں عالمی تپش کی شرح میں کمی لانے کے سلسلے میں دیگر معاہدوں میں پیش رفت کے حوالے سے بھی مدد ملے گی۔