وہ مردم شناس نہیں

Reham Khan, Imran Khan

Reham Khan, Imran Khan

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
ریحام خاں سے علیحدگی کے بعد جب عمران خاں”قیدِ تنہائی” ختم کرکے پہلی بار میڈیا کے سامنے آئے تو ایک صحافی کے چبھتے ہوئے سوال پربھڑک اٹھے۔ صحافی نے کہا کہ عمران خاں اپنی نجی اور سیاسی زندگی کے حوالے سے ”مردم شناس” ثابت نہیں ہوئے کیونکہ اُنہوں نے جس پراعتماد کیا ،آخر میںاسی نے ان کو دھوکا دیا۔

صحافی کی اِس بات پرخاںصاحب برہم ہوگئے اورساتھ بیٹھے وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک اور دیگر وزراء کی کوششوںکے باوجود اُنہوںنے انتہائی سخت مگردھیمے ”سُروں” میںکہا ”ہرمعاشرے کے کچھ اصول ہوتے ہیں، کچھ اخلاقیات ہوتی ہیں۔ ہرانسان کی اپنی نجی زندگی ہوتی ہے جس میںوہ کبھی خوش اورکبھی دکھی ہوتاہے ۔ایسے حالات میںاِس قسم کے سوال پرتمہیں شرم آنی چاہیے۔ اِس سوال پرمیں کیا شرمندہ ہوںگا ،ایسے سوال کرنے والے نے خودلوگوں کواپنی اوقات بتادی”۔ عرض ہے کہ ”خودکردہ راعلاجے نیست ” کے مصداق یہ سب کچھ خاںصاحب کااپنا ہی کیادھرا اور مکافاتِ عمل ہے۔

سیانے کہتے ہیںکہ جَوکاشت کرکے گندم کی اُمیدرکھنے والااحمق اورشیشے کے گھرمیں بیٹھ کردوسروںکو پتھرمارنے والابھی احمق۔ پاکستانی سیاست میںغیرپارلیمانی زبان استعمال کرنے کے ”موجد”کپتان صاحب ہی توہیں جواپنی تقاریرمیں کبھی ”اوئے نوازشریف” اورکبھی ”اوئے مولوی ڈیزل” کہاکرتے تھے ۔یہ بھی کپتان صاحب ہی ہیںجن کے نزدیک لفظ ”شرمناک” سرے سے گالی ہی نہیں۔ اب اگرخاںصاحب ہی کے تتبع میںکھُلتی زبان سے یہ سوال پھِسل گیا تواِس پر چیں بہ چیں ہوتا چہ معنی دارد۔ اب توخاںصاحب کی خدمت میں دست بستہ یہی عرض کیاجا سکتاہے کہ

اب کیوں اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اِس طرح تو ہوتا ہے ، اِس طرح کے کاموں میں
ریحام خاںسے شادی کپتان صاحب کا خالصتاََ ذاتی فیصلہ

تھاجس میں کسی دوست ،عزیز یارشتے دارسے قطعاََ مشاورت نہیںکی گئی اِس لیے کسی دوسرے کو توموردِالزام ٹھہرایاہی نہیںجا سکتااوریہ کہے بناکوئی چارہ نہیںکہ وہ ”مردم شناس” نہیں۔ سیاسی زندگی میںاُن کی مردم ناشناسی کابیّن ثبوت یہ کہ 2011ء کے اختتام پروہ تحریکِ انصاف کی تاریخ کے عروج کو چھوتے ہوئے 34 فیصد پراورنوازلیگ محض 27 فیصدجبکہ جون 2012ء میںتحریکِ انصاف 24 فیصد اورنوازلیگ 28 فیصد اورپھر اسباب پڑے یوںکہ 2012ء کے اختتام تک تحریکِ انصاف محض 15/16 فیصدتک جاپہنچی ۔یہ اسباب کیاتھے؟۔۔۔۔

 Imran Khan

Imran Khan

سبھی جانتے ہیںکہ نسلِ نَو جلسے جلوسوںمیں صرف کپتان صاحب کوہی دیکھنے اورسننے آتی تھی باقی کسی رہنماء کی توپرکاہ برابر حیثیت نہ تھی اِس لیے تحریکِ انصاف کی اپنی انتہاؤںکو چھوتی مقبولیت کی وجہ بھی کپتان صاحب ہی تھے اوراب (بلدیاتی الیکشن کے بعد) سُکڑی سمٹی تحریکِ انصاف کی اِس پستی کاباعث بھی کپتان صاحب کوہی ٹھہرایا جائے گا ۔ یہ تسلیم کیے بناکوئی چارہ ہی نہیںکہ تحریکِ انصاف محض ”وَن مین شو” تھا اوراب بھی ہے اِس لیے اپنی جماعت کے دوسرے رہنماؤںکی جواب طلبی کی بجائے وہ اگر اپنی اداؤں پہ غورکرنے کی زحمت گواراکر لیںتو تحریکِ انصاف اب بھی ”اثاثہ ” ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی تواب قصّۂ پارینہ بن چکی اورنواز لیگ کو”صراطِ مستقیم” پہ رکھنے کے لیے ایک مضبوط اپوزیشن کی بہرحال ضرورت ہے ۔اب کیا کیجئے کہ خاںصاحب تو اپنے خطاب کی ابتداء صرف ”اِیّاکَ نَعبُدُ و َ اِیّاکَ نَستَعِین” سے کرتے ہیں ”اِھدِنَا الصِرَاطَ المُستَقِیم” کبھی نہیںکہتے۔ شایداُن کے نہاںخانۂ دِل میںکہیں یہ احساس جاگزیں ہوکہ وہ خود صراطِ مستقیم پہ نہیں۔اب سوال یہ کہ جو خود راہِ راست سے بھٹک چکاہو وہ کسی دوسرے کو صِرَاطِ مُستَقِیم پہ کیوںکررکھ سکتاہے؟۔

جہاںتک ذاتی زندگی اورنجی زندگی کاسوال ہے تو یہ بالکل بجاکہ کہ کسی کی نجی زندگی کی ٹَوہ میںرہنا انتہائی قبیح فعل جس کی کوئی توجیح پیش نہیںکی جاسکتی ۔سوال مگریہ کہ جوخود اپنی نجی زندگی کو ”پبلک” کردے ،اُس کانجی زندگی پر کیے گئے سوالات پر تِلملانا چہ معنی دارد؟۔ ”خودکردہ راعلاجے نیست” کے مصداق کپتان صاحب کی نجی زندگی تواُسی وقت ”پبلک” ہوگئی جب اُنہوںنے دھرنوںکے موسم میںکنٹینرپر کھڑے ہوکر بَرملا کہ ”میںجلدی جلدی نیاپاکستان اِس لیے بنانا چاہتاہوں تاکہ میںشادی کرلوں”۔اُن کے اِس بیان کے بعدہی کچھ” بگڑی بچیوں”نے الیکٹرانک میڈیاکا سہارالیتے ہوئے اپنے آپ کوشادی کے لیے پیش کرناشروع کردیا ۔ویسے شنیدہے کہ جب خاںصاحب نے کنٹینرپر کھڑے ہوکر یہ اعلان کیا ،اُس سے پہلے مفتی سعید اُن کاریحام خاںسے نکاح پڑھاچکے تھے۔

نکاح کے بعدبھی خاںصاحب نے اپنی نجی زندگی کوپبلک کرنے میںکوئی کسرنہیں چھوڑی۔ یہ خاںصاحب ہی تھے جنہوںنے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کون کہتاہے کہ ”تبدیلی” نہیںآئی ، میرے گھرمیں توتبدیلی آچکی۔ خاںصاحب کی مرضی سے ہی ریحام خاں سیاست میںآئی لیکن جب ہری پورکے ضمنی انتخاب میںبُری ہزیمت کاسامنا کرناپڑا تو پارٹی رہنماؤں کی طرف سے ریحام خاںکے سیاسی کردارپر شدیدتنقید شروع ہوئی جس پرخاںصاحب نے کہہ دیاکہ اب ریحام خاںسیاست میںکوئی کردارادا نہیںکرے گی، یہ الگ بات کہ ریحام خاںنے خاںصاحب کایہ ”حکم” ماننے سے انکارکر دیااور وہ لاہورکے حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب میںبھی نظرآئیں۔ کہاجا سکتاہے کہ اپنا حکم منوانے کے عادی کپتان صاحب کوشاید زندگی میںپہلی بارہزیمت کاسامنا کرناپڑا۔

اب لندن میںمیڈیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ نے عمران خاںہی کی زبان استعمال کرتے ہوئے کہاہے کہ چھَکے مارنے سے کام نہیںبنتا ،” پِچ” پر ٹھہرنے اور ”سَلو ” کھیلنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ گویا وہ یہ کہنا چاہتی تھیںکہ خاںصاحب کی تیزی اورطراری ہی دراصل اُن کی ازدواجی زندگی کے اختتام کاباعث بنی اوریہی تیزی اُن کی سیاسی زندگی کے زوال کاباعث بن رہی ہے ۔ہم ریحام خاںصاحبہ کے بارے میںکچھ نہیںکہنا چاہتے لیکن وہ اپنے خلاف اُٹھنے والی اُن آوازوںپر ضرورغور کرلیں جو پاکستان میںزبان زدِعام ہیںاورجن کے مطابق وہ ایک مخصوص مقصدکے تحت عمران خاںکی زندگی میںداخل ہوئیںاورمردم ناشناس کپتان صاحب اُس کے دام میںاُلجھ کررہ گئے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر