تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری وزیر ریلوے سعد رفیق صاحب بہت بڑے باپ خواجہ رفیق صاحب کے ہو نہار صاحبزادے ہیں ان کے والد مرحوم نے ساری عمر اسلام پاکستان اور جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے جدو جہد ی وہ پاکستان دو لخت ہو جانے کے بعد بھٹو کے مقتدر ہو جانے پر لاہور کی واحد آواز تھے جو جلسہ عام میں حکمرانوں کے خوب لتے لیتے، اور زبردست تنقید کرتے تھے وہ آغا شورش کا شمیری نواب زادہ نصراللہ خان اور سید ابو الاعلیٰ مودودی کے دور میں حب الوطنی کی سیاسی ساکھ سنبھالے ہوئے تھے طلباء تنظیموں سے زبردست محبت رکھتے اور طلباء کی منتخب یونینوں کو انتہائی پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے تھے پنجاب یونیورسٹی کی لیڈر شپ بارک اللہ خان، حافظ محمد ادریس، حفیظ خان، جاوید ہاشمی و دیگر کے تو وہ زبردست عقیدت مند تھے۔انھیں ڈیرہ غازی خان سے ایم این اے ڈاکٹر نذیر احمد شہیدکی طرح حکومتی آمرانہ دور میں لاہور کی صوبائی اسمبلی کی عمارت کے قریب سے گزرتے ہوئے غنڈوں نے شہید کر ڈالا تھا سعد رفیق کا ابھی بچپن تھا قتل کا الزام تو براہ راست “اصل حکمران” پر لگا مگر قاتل ملزمان سزا سے بچ رہے 1977کی نظام مصطفی تحریک تک سعد رفیق لاہور سے اٹھنے والی نئی طلباء لیڈرشپ کے نمائندے بن چکے تھے۔
انہوں نے ایم ایس ایف کی ہمہ قسم سرگرمیوں میں حصہ لیا اور یہاں تک کہ کالجوں پر قبضوں کی مہم چلی وہاں بھی اصولی اور بے اصولی سیاست میں بھرپور کردار ادا کرتے رہے اتنے بڑے جری اور خوددار باپ کے بیٹے ہوتے ہوئے سعد رفیق کو سیاسی اچھے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے اورحالیہ لودھراں و گوجرہ کے ریلوے پھاٹک کے واقعات پر جس میں بے قصور بچوں اور پاکستانیوں کا خون بہا اور بیشتر اللہ کو پیارے ہو گئے پر انھیں فوری استعفیٰ دے ڈالنا چاہیے تھا کہ ہمسایہ ملک تک میں غیر مسلم ہندہ مہاشوں کا بھی یہی وطیرہ ہے اور ہم ٹھہرے ہمدر د مسلمان طبقے کے لوگ اور یہ عقیدہ کہ دریاکے کنارے اگر کتا بھی مرگیا تو ذمہ داری سربراہ کی ہی ہوگی مگر سعد رفیق شاید نواز شریف کو قائد مانتے ہیں اور اس لیے ان کے پیرو کار رہنا زیادہ بہتر خیال کرتے ہوں گے اس لیے کوئی بھی الزام لگتے رہیں وہ استعفیٰ کی طرف قطعاً نہیں آتے حالانکہ ایسا کرنے میں ان کی عزت گھٹنے کی بجائے بڑھ جاتی ۔ان کا یہ فرمانا کہ ریلوے کا مرکزی وزیر تو میں ہوںمگر خالی ریلوے پھاٹکوں کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے عوام کو اچھا نہیں لگا ۔
کیا ایسا تو نہیں کہ حکمران سمجھتے ہیں کہ ایسے حادثات سے عوامی توجہ حکمرانوں کی طرف سے مڑ کر حادثات پر بحث و مباحثہ کی طرف چلی جاتی ہیں مگر ایسا نہیں ہے ایسے واقعات پر حکومت کے خلاف نفرت مزید بڑھ جاتی ہے تقریباً ہر ہفتہ میں ایک دو بار ریلوے واقعات کے مسلسل ہو نے سے ریلوے اب عوامی سہولت نہیں بلکہ عوامی قاتل کا روپ دھار چکی ہے لوگ اس کی لائنو ں کے قریب بھی بچوں کو جانے نہیں دیتے اور ریلوے کراسنگ پر سے گزرتے ہوئے خوف سے کانپنے لگتے ہیں گذشتہ تین سالوں میں ایسے حادثات میں تقریباً سات درجن افراد کا جان سے گزر جانا کوئی معمولی نہیں بلکہ انتہائی قابل مذمت واقعات ہیں جس پر ذمہ داروں کے چہروں پر لگی کالک کسی معافی یا استعفوں سے دھل نہیں سکتی اگر میاں نواز شریف صاحب بھی خاکسار کی طرف سے ان کے نام ایک اپیل جو کہ پانامہ لیکس کے واقعہ کے بعد ایک کالم کی صورت میں چھپ چکی ہے پر استعفیٰ دے ڈالتے تو آج کی گھمبیر صورتحال قطعاً پیدا نہ ہوتی کوئی دوسرا ن لیگی وزارت عظمیٰ سنبھال لیتا۔
Pakistan Railway
شہباز شریف صاحب کے بیٹے بھی ایم این اے ہیں وہ وزیر اعظم بن جاتے تو بھی کسی ن لیگی کو اعتراض نہ ہوتا اس طرح وزیر اعظم عہدہ سے ہٹ کر مقدمہ کی پیروی کرتے تو ان کی عزت میں اضافہ ہو جاتا اور اپوزیشن بھی جتنا شورو غوغا آج کر رہی ہے وہ بھی نہ کر پاتی اور پاکستانی پولیس وعدالتی نظام میں تو مقدمہ کی تحقیق و تفتیش اور فیصلوں میں کئی سال لگ جاتے ہیں اگر مقدمہ چل بھی رہا ہو تو عدالتیں حکم امتناہی بھی جاری کردیتی ہیں اس طر ح بغیر کسی نتیجہ نکلے2018کا الیکشن آن پہنچتا اور نواز شریف اصولی سیاست کے علمبردار ہونے کے ناطے ان کا بال بھی بیکا نہ ہوتا ۔پارٹی کے بدستور قائد رہتے جو کہ وزیر اعظم سے بحر حال بڑا عہدہ ہے مگر اب دگر گوں حالات ہیں کہ سنبھلے نہیں جارہے الزام جھوٹا ہے یا سچا مگر عوامی رائے یہی ہے کہ “کچھ تو ہے جس کی یہ پردہ داری ہے ” پھر سارے خاندان کے بیانات میں تضاد کی وجہ سے خوب بھد اڑ رہی ہے اس پر طرہ یہ کہ قطری شہزادے کے بیان نے تو ایسا رنگ جمایا ہے کہ لو گ سارا دن ہنسی مزاق اور مخولیات میں ہی تبصرے کرتے رہتے ہیں پھر ان متنازعہ بھاری رقوم کو محترمہ مریم نواز شریف کو دینا اور بھی نہلے پر دھلا بنا ہوا ہے بی بی سی جیسے موثر نشریاتی ادارے نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ لندن والے فلیٹ 1993سے ہی شریف خاندان کی ملکیت ہیں اور بعد ازاں بھی اس میں کوئی ملکیتی تبدیلی نہیں ہوئی پھر بیٹے کی طرف سے جناب وزیر اعظم کو کل 52 کروڑ روپے بطور تحفہ بھجوانا بھی انو کھا تاریخی واقعہ بن چکا۔
ہے میاں صاحب آپ ہی اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں لو گ عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔ سعد رفیق صاحب !آپ ہی بتائیں کہ ریلوے پھاٹک لگانے پر خواہ وہ سینکڑوں کی تعداد میں ہی کیوں نہ ہو ںکیا خرچہ لاہور کی میٹرو بس یا اورنج ٹرین سے سینکڑوں گنا کم نہیں؟ پھر دیر کس بات کی ہے یہ سستی و کوتاہی چہ معنی دارد ؟ریلوے ٹریک پر روزانہ پھاٹک نہ ہونے کی وجہ سے ا موات کا شکار ہونے والے افراد کیا پاکستانی شہری اور مسلمان بھائی نہ ہیں اگر ذرا برابر بھی دکھ تکلیف یا شرم محسوس فرمائیں تو میری ذاتی گزارش پر ہی یا سارے پھاٹک ایک ماہ میں لگوائو یا پھر گھر میں آرام فرمائو ۔ امید قوی ہے کہ میں چونکہ تمام سابقہ سٹوڈنٹس لیڈرز جاوید ہاشمی شیخ رشید سے سینئر ہوں اس لیے میری بات کا برا منانے کے بجائے آپ اس پر عمل کرنا ہی اپنی عزت افزائی سمجھیں گے خدا انھیں توفیق دے۔