تحریر : سید توقیر زیدی سارک ممالک کے وزرائے خزانہ کے آٹھویں سالانہ اجلاس میں یورپی یونین کی طرز سے سارک ممالک کی مشترکہ کرنسی کے اجرا کو ناممکن قرار دے دیا گیا؛ تاہم سارک اکنامک یونین بنانے کی جانب پیش رفت کے لیے رکن ممالک کے مرکزی بینک نومبر تک باہمی تجارت ڈالر کے بجائے لوکل کرنسیوں میں کرنے کے لیے بینکوں کی سطح پر کرنسیوں کی کلیئرنگ کا نظام وضع کرنے پر متفق ہو گئے ہیں۔ رکن ممالک روڈ، ریل، ہوائی اور سمندر کے ذریعے تجارتی و سیاحتی رابطوں کو فروغ دینے، سارک ممالک کی تمام بڑی تجارتی تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداران کو بغیر ویزا سارک کے تمام رکن ممالک کے دورے کرنے کے لیے انہیں سارک ویزا سٹکر کے اجرا، سارک ترقیاتی فنڈ سے بڑے تعمیراتی منصوبے شروع کرنے پر اتفاق رائے ہو گیا۔
سارک وزرائے خزانہ کانفرنس میں کیے گئے فیصلے مناسب اور صائب ہیں۔ عملدرا?مد کیا جائے تو اس کے رکن ممالک کے داخلی حالات اور ان کے باہمی تعلقات پر نہایت مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان کے درمیان ا?مد و رفت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ تعلیمی ترقی کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ یہ ممالک ایک دوسرے کی ترقی میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ کسی رکن ملک کے مالی اور معاشی مسائل کا شکار ہونے کی صورت میں اس کی اقتصادی مدد کی جا سکتی ہے’ اور مشترکہ کرنسی اگر ممکن نہیں’ یا فی الحال ممکن نہیں تو باقی شعبوں میں تعاون بڑھایا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ا?ج سے لگ بھگ 30 سال قبل یہ تنظیم قائم ہی ان سب اہداف کے حصول کے لیے تھی’ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ اہداف پورے نہیں کیے جا سکے۔ گہرائی تک جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ ان میں سے کوئی ایک بھی ہدف پوری طرح حاصل نہیں کیا جا سکا۔ اس کی بنیادی ترین وجہ ہے سارک کے رکن بعض ممالک کا ہٹ دھرمی کا رویہ۔ اور یہ واضح ہے کہ جب تک اعتماد سازی کے لیے کام نہیں کیا جائے گا’ رکن ممالک ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کریں گے’ اس وقت تک اس صورتحال میں کسی واضح تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
European Union
جب بھی سارک کا ذکر ا?ئے تو اکثر یورپی یونین کی مثال دی جاتی ہے اور اس خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سارک تنظیم کے تحت بھی اسی طرح کا ایک اتحاد قائم ہونا چاہیے’ لیکن یہ وضاحت کوئی نہیں کرتا کہ وہاں تمام ٹرانزیکشنز چیک ہوتی ہیں اور کسی ایک ملک کا ویزا یونین کے رکن تمام ممالک کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یورپی یونین نے یہ منزل ایک دوسرے پر اعتماد کرکے حاصل کی ہے۔ ان میں سے کسی کو یہ شک شبہ نہیں ہے کہ کوئی ملک کسی دوسرے رکن ملک میں اپنے تخریب کار بھیج دے گا’ یا جو ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں’ یہ روپیہ تخریب کاری کے لیے استعمال ہو گا۔ اپنے بنیادی مسائل انہوں نے حل کر لیے ہیں اور ان کے درمیان کوئی متنازع ایشو موجود نہیں ہے کہ باہم دست و گریباں ہوں یا ایک دوسرے کے خلاف پراکسی وار لڑیں۔
سارک کی بات کی جائے تو یہاں یورپی یونین جیسا اعتماد عنقا ہے۔ اور یہ بداعتمادی محض پاکستان اور بھارت کے مابین نہیں’ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان بھی ہے۔ بھارت اور نیپال کے تعلقات کو بھی اطمینان بخش نہیں کہا جا سکتا۔ بھارت سے مالدیپ بھی خوش نہیں۔ بھارت کے بھوٹان سے بھی مسائل چل رہے ہیں اور بھارت اور سری لنکا کے تعلقات میں بھی خرابی پائی جاتی ہے؛ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس خطے کے مسائل کی بڑی وجہ بھارت کا رویہ ہے’ جو پورے خطے پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے اور اس علاقے کے چھوٹے ممالک کے لیے بڑے بھائی کا کردار ادا کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔
پھر افغانستان اور پاکستان کے مابین بھی پچھلے کچھ عرصے سے کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ سارک ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے اور تعاون بڑھانے کے لیے کام کرنے سے پہلے ان مسائل کو حل کرنے پر توجہ مبذول کی جائے تاکہ ان کی وجہ سے درپیش مشکلات پر قابو پایا جا سکے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی مسئلے کا ایک فریق تو کوئی لچک نہ دکھائے اور دوسری جانب سے یک طرفہ طور پر پیش رفت شروع ہو جائے؟ صورتحال اس قدر نازک اور تعلقات اس قدر پیچیدہ ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی ایک واقعہ رونما ہو جائے تو حالات میں بہتری کے لیے کی گئی آٹھ دس سال کی محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔
SAARC Conference Members
بداعتمادی کی صورتحال کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ روز ہونے والی سارک وزرائے خزانہ کانفرنس میں بھارت کا کوئی نمائندہ شریک نہیں ہوا۔ اس سے پہلے ماہ رواں کے آغاز میں بھارتی وزیر داخلہ سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تو کانفرنس ادھوری چھوڑ کر واپس چلے گئے تھے۔ اب بھارتی وزیر خزانہ آئے ہی نہیں ہیں۔ جہاں بداعتمادی اور اختلافات کا یہ عالم ہو وہاں باہمی تعاون کا فروغ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟۔
سارک کے رکن دوسرے ممالک کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ خاموش تماشائی کا کردار ترک کرکے ان دو بڑے ممالک کے مابین مسائل حل کرائیں تاکہ باہمی تعلقات کے فروغ کے سلسلے میں آگے بڑھا جا سکے اور سماجی مسائل کے حل کی راہ ہموار ہو سکے۔ سارک کے پلیٹ فارم سے کی گئی اب تک کی کوششیں اس لیے مکمل طور پر بارآور ثابت نہیں ہو سکیں کہ کچھ ممالک ان کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ دہلی میں قائم سارک یونیورسٹی کی ہی مثال لے لیں۔
حالات یہ ہیں کہ پاکستان سے وہاں جانے والوں کو سہولیات ہی فراہم نہیں کی جاتیں۔ کوئی انہیں کرائے کا مکان دینے تک کا روادار نہیں۔ یہ ساری قباحتیں جب تک دور نہیں کی جاتیں اس وقت تک سارک کے اغراض و مقاصد پورے ہونا محال ہے۔ پھر بھی گزشتہ روز کے فیصلوں پر عملدرآمد کرایا جائے تو یہ رکن ممالک کی خوش بختی ہو گی۔