کراچی (جیوڈیسک) سارک پیمنٹس کونسل کے سولہویں اجلاس میں ورچوئل کرنسی اور سارک خطے کے لیے واحد ہم آہنگ ادائیگی کے نظام کے تصور پر غور وخوض کیا گیا۔
حال ہی میں لاہور میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر اور کونسل کے چیئرمین قاضی عبدالمقتدر کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سارک ممالک کے مرکزی بینکوں کے وفود نے شرکت کی۔ سارک پے منٹ انیشیٹو کا آغاز سارک فنانس گروپ کے مرکزی بینک کے گورنروں کے زیر اہتمام 2007 میں ہوا تھا جس کا بنیادی مقصد سارک خطے کے ادائیگی اور چکتائی کے نظاموں (پی ایس ایس) کو مضبوط بنانا ہے تا کہ سارک خطے میں ایک مستعد، متحرک، مستحکم اور مرتکز پی ایس ایس کے قیام میں سہولت مل سکے۔
پاکستان کا مرکزی بینک سارک پیمنٹ کونسل سیکریٹریٹ کا میزبان ہے اور ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کو اس کا چیئرمین نامزد کیا گیا ہے۔ دیگر امور کے علاوہ کونسل کو سارک کے ہر رکن ملک نے اپنے ادائیگیوں اور چکتائی کے نظاموں کو ترقی دینے اور انہیں مضبوط بنانے اور اپنی متعلقہ حدود میں قائم کیے گئے انفرااسٹرکچر کی سطح پر ہونے والی پیش رفت سے بھی آگاہ کیا گیا۔
ورچوئل کرنسیوں اور سارک خطے کے لیے واحد ہم آہنگ ادائیگی کے نظام کے تصور کے معاملے پر یہ اتفاق کیا گیا کہ نظام کی معیار بندی اس سمت میں پہلا قدم ہوگی اور کونسل کی تکنیکی کمیٹی کو مستقبل کے مذاکرات کے لیے ایک فریم ورک وضع کرنے کا کام سونپ دیا گیا۔ چونکہ کونسل کا اجلاس رکن ممالک کے اتفاق رائے سے ہوتا ہے اس لیے بنگلہ دیش نے تجویز دی کہ وہ سارک پے منٹس کونسل کے 17 ویں اجلاس کی میزبانی کرے گا جو 2015 کی آخری سہ ماہی میں منعقد ہوگا، ان کی تجویز کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔
کونسل کے اجلاس کے بعد ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں فنانشیل مارکیٹ انفرااسٹرکچر کے اصولوں (پی ایف ایم آئی) ان کے نفاذ اور ریٹیل ادائیگیوں کے نظام سے متعلق مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی۔بینک فار انٹرنیشنل سیٹل منٹس سے تعلق رکھنے والے بازل کی ادائیگیوں و مارکیٹ انفرااسٹرکچر کی کمیٹی کے رکن عمر فاروقی نے پریزینٹیشنز دیں۔
ان نئے موضوعات میں وسیع تر شرکت اور رسائی بڑھانے کے لیے اسٹیٹ بینک ہیڈ آفس کو بھی ویڈیو لنک کے ذریعے سیمینار سے منسلک کیا گیا تھا جس کے بعد مباحث اور سوال و جواب کا سیشن منعقد ہوا۔سارک پے منٹس کونسل کے وفود کے لیے اگلے روز دو ورکشاپس منعقد کی گئیں۔ ان میں سے ایک مالی شمولیت میں دائیگیوں کے نظاموںکے کردار اور دوسری سارک خطے میں فنانشیل مارکیٹ انفراسٹرکچر کے متعلق تھی۔