سارک کانفرنس کے دوران ملاقات کیلئے وزیراعظم نے مودی کو خط نہیں لکھا، دفتر خارجہ

Foreign Office

Foreign Office

اسلام آباد (جیوڈیسک) دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے نیپال میں ہونے والی سارک کانفرنس کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ملاقات کے لئے کوئی خط نہیں لکھا اور اس حوالے سے چھپنے والی رپورٹس قطعاً بے بنیاد ہیں۔

جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے اپنے بھارتی ہم منصب کو سارک کانفرنس کے دوران ملاقات کیلیے کوئی خط نہیں لکھا، اس طرح کی رپورٹس صریحاً بے بنیاد ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ رابن رافیل کو پاکستان کا دوست ہونے کی وجہ سے زیر تفتیش لایا گیا ہے۔

سابق امریکی سفارت کار سے پوچھ گچھ امریکا کا اندرونی معاملہ ہے، رابن رافیل سے پاکستان کا دوست ہونے کی وجہ سے تفتیش نہیں ہو رہی، یہ تاثر غلط ہے۔ امریکا نے ایسی کوئی بھی بات سرکاری یا غیر سرکاری طور پر نہیں کی، رابن رافیل کا پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلق رہا ہے، اسی طرح کا تعلق اور واسطہ ان کا اس سارے خطے سے رہا ہے اور وہ اس علاقے کو بہت اچھی طرح سمجھتی ہیں، ان سے تفتیش اور پوچھ گچھ امریکا کا اندرونی معاملہ ہے، نہ تو ہم نے ان تحقیقات کی وجوہ پوچھیں اور نہ ہی اس طرح کی کوئی بات منظر عام پر لائی گئی ہے۔

پاکستان کی جانب سے چین کو علیحدگی پسند تنظیم مشرقی ترکمانستان اسلامی تحریک یا ای ٹی آئی ایم کے خلاف کارروائی میں بھر پور تعاون پر سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہاکہ پاکستان نے بارہا کہا ہے کہ چین کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے، پاکستان اور چین اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے، ہم یہی توقع باقی ممالک سے بھی کرتے ہیں کہ وہ بھی اس پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے۔

تسنیم اسلم نے کہا کہ امریکا، نیٹو اور ایساف کی افغانستان میں موجودگی اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی جانب سے منظوری کے تحت ہے، ہم جو تعاون کر رہے ہیں وہ عالمی ذمے داریوں کے تحت ہے، ایسے وقت میں جب امریکا اپنے فوجی افغانستان سے واپس بھیج رہا ہے تو پاکستانی پورٹس کو سپلائی کیلیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

شدت پسند تنظیم داعش کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، ہم اس مسئلے کے خاتمے کیلیے کی جانیوالی عالمی کوششوں میں ایک اہم پارٹنر ہیں، امریکا، یورپی یونین یا کسی اورکی طرف سے داعش کے خلاف تعاون کے حوالے سے کوئی درخواست نہیں ملی۔