تحریر: رانا آصف خورشید ہمارا المیہ یہ ہے کہ قوم ایک طرف دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کا شکار ہے تو دوسری طرف ایک ایسے طبقے کی سازشوں کی زد میں ہے جس کا مقصد اس قوم کو تقسیم کرنا ہے۔ ذرائع ابلاغ پر اس طبقے کا بڑا حصہ قبضہ جمائے بیٹھا ہے یا یہ کہہ لیں کہ ریاست میں اظہار آزادی رائے کے نام پر یہ طبقہ اس قوم کے ذرائع ابلاغ کو یرغمال بناکر قوم پر مسلط ہے ان کا مقصد قوم کو ایسی لال بتی کے پیچھے لگانا ہے جس کی کوئی منزل نہیں البتہ اس کے ساتھ ساتھ قوم کو اپنے ہی ریاستی اداروں کے خلاف متنفر کرنا بھی ان کے اولین مقاصد میں سے ہے تبصرے تجزیے گھما پھر ا کر اسی اشارے پرختم ہوتے ہیں کہ ایک مخصوص ادارہ اس کا ذمہ دار ہ ہے۔
اس سے پہلے کہ اصل واقعہ پر بحث کی جائے پس منظر جاننا ضروری ہے تاکہ محرکات کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے گزشتہ دنوں چین کے صدر کا دورہ پاکستان بین الا قوامی ذرائع ابلاغ بالخصوص بھارت میں بہت زیر بحث رہا اگرچہ یہ دورہ کافی عرصہ پہلے طے ہو چکا تھا تاہم سیاسی حالات کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا اپنے اس دورے کے دوران چین کے صدر نے دونوں ملکوں کے درمیان گہری اور لازوال دوستی کے رشتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے پنتالیس ارب ڈالرکے تجارتی منصوبوں کی بنیاد رکھی۔
Pakistan and China
پاکستان اور چین ہمیشہ سے دوستی کے رشتے کے ساتھ ساتھ سیاسی اور اسٹریٹیجک تعلقات کی ایسی ڈور میں بندھے ہوئے ہیں کہ جس میں کسی موقع پر بھی کمزوری نظر نہیں آئی ۔ان منصوبوں سے جہاں پاکستان کو توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی اقتصادی راہداری ملنے سے چین بھی معاشی ثمرات سمیٹے گا اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عالمی سطح پر اقتصادی اور اسٹریٹجک تعلقات دوطرفہ مفادات پر ہی قائم کیے جاتے ہیں تاہم قیام پاکستان اور چین میں سوشلسٹ حکومت کے قیام سے لے کر اب تک دونوں ممالک کے تعلقات آئیڈیل رہے ہیں دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ ہی آزمائش پر پورا اترے ہیں اس کے باوجود پاکستان میں ایک طبقے کی جانب سے ان اقتصادی معاہدوں کو متازعہ بنانے کی پوری کوشش کی گئی جو ناکام ہو گئی دوسری طرف بھارت ذرائع ابلاغ میں اس پر شورو غوغاشروع کر دیا گیا اور ایک طوفان بدتمیزی بپا کیا گیا۔
افغانستان کے سرحدی علاقوں سے بلوچستان میںبھارتی مداخلت کو دیکھا جائے دوسری طرف گوادر تک چین کی اقتصادی راہداری کے ذریعے رسائی کو دیکھا جائے تو معاملہ بہت حد تک واضح ہو جاتاہے کہ بھارت کے ذرائع ابلاغ میں صف ماتم کیوں بچھی ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ ان دنوں سعودی عرب کی جانب سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف آپریشن میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے بھی ایک خاصی بحث چل رہی ہے پاکستان کی عوام کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب کے ساتھ مقامات مقدسہ کی وجہ سے گہری عقیدت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں اس حوالے سے پاکستان میں بڑے بڑے اجتماع منعقد کر کے حکومت کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اس کڑے حالات میں پاکستان کو سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا چاہیے اور اس مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے یا اسے سعودی عرب اور ایران کی جنگ بنانے کا کو ششوں کو ناکام کرنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے ، اس حوالے سے پارلیمنٹ کی مبہم قرارداد دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک دراڑ ثابت ہوئی جس کووجہ سے وزیر اعلیٰ پنجاب اور بعد ازاں وزیر اعظم پاکستان اورسربراہ فوج کو سعودی عرب کا ہنگامی بنیادوں پر دورہ کرنا پڑا۔خود وزیراعظم پاکستان نے سرکاری ٹی وی پر پالیسی بیان جاری کیا تاکہ ان تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی سازش کو ناکام بنایا جا سکے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سعودی عرب اور چین دو ایسے ممالک ہیں جنہوں نے کسی بھی قسم کے مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا تاہم ایک مخصوص طبقے نے اپنی روش برقرار رکھتے ہوئے ان دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اگرچہ وہ اس میں ناکام ثابت ہوئے۔
Nawaz Sharif
اسی پس منظر میں کراچی میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس کا بظاہر ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں تاہم اس واقعہ کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو معاملات کا فی حد تک سمجھ آ جاتے ہیں ۔ 24اپریل کی شام کو ایک ٹارگٹ کلنگ کے شہر میں ایک ایسی خاتون کو نشانہ بنایا گیا جو سوشل میدان میں خاصی سرگرم تھیں البتہ ذرائع ابلاغ میں بہت کم لوگ تھے جو اس کو جانتے ہوں ۔ہمارے ہاں یہ وباء ایک فیشن بن چکی ہے کہ جان بوجھ کر ایسے مسائل کا ذکر کیا جائے جس پر پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیاں کام کر رہی ہوں اور انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جائے تاکہ بین القوامی میڈیا میں ذیادہ سے ذیادہ پزیرائی مل سکے ۔ ان مسائل میں بلوچستان ایشو ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ہے ۔ہمسایہ ملک بھارت کی جانب سے بلوچستان میں موجود علیحدگی پسندوں کو امداد کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تاہم اس کے باوجود ایک طبقے کی جانب سے اس یشو کو متنازعہ بنا کر بھارت کے لیے پراپیگنڈا کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ لاہور میں ایک نجی یونیورسٹی میں مبینہ طور پر ایک ایسے سمینار کا روک دیا گیا جس میں بلوچستان میں علیحدگی پسند کے ”سیاسی رہنما” ماما قدیر نے خطاب کرنا تھا ۔سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کو اس بات اختیار نہیں کہ وہ ایسے کسی بھی پروگرام کو روک سکے جس میں ملک کی سلامتی کے خلاف بات چیت ہو ۔اگر ایسا نہیں تو کل کوتحریک طالبان سمیت دیگر دہشت گرد قوتوں کو بھی ایسی اجازت دی جا سکتی ہے ۔۔ہر گز نہیں ۔ریاست کو یہ حق دینا پڑے گا کہ وہ کسی بھی ایسے پروگرام کو روک سکے جس میں ایسے عناصر موجود ہوں جو ملک کی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہوں خواہ اس کا تعلق تحریک طالبان سے ہویاکسی اور گروہ سے ۔ اس سیمینار کو روکے جانے کے بعد سوشل میڈیا پرریاستی اداروں کے خلاف پھر سے ایک مہم کا آغاز کیا گیا جس کا فائدہ علیحدگی پسند وں کو پہنچایا گیا۔
اسی طرح کا ایک سیمینار کا انعقاد کراچی میں کیا گیا اور اس میں بھی ماما قدیر کو پورا موقع دیا گیا کہ وہ آزادی اظہار کے نام پاکستان کے خلاف اپنے بغض کا اظہار کر سکے ۔ اس سیمینار کے ختم ہونے کے بعد ایک خاتون مقرر کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ۔جس کے بعد پھر سے ایک سوشل میڈیا پر اس قتل کی ساری ذمہ داری ریاستی ادارے پر ڈال دی گئی اور اس کے ساتھ ہی ذرائع ابلاغ پر یہ طبقہ متحرک ہو گیا اور پھر سے اس ادارے کے خلاف ایک منظم مہم کا آغاز کر دیا گیا اور یہ تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ اس مہم کا آغاز بھی بھارت سے ہوا ۔ کسی بھی قتل کے بعد پہلا شبہ ہمیشہ اس پر ہوتا ہے کہ اس قتل کے بعد فائدہ کس کو ہوا ۔اس معاملے میں دیکھا جائے تو قتل کے فورا ً بعد ہی ریاستی اداروں کے خلاف مہم اور دوسری طرف بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو اس میں بری الذمہ قرار دینا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہو رہا ہے ۔ جن لوگوں نے اس خاتون کو نشانہ بنا یا وہ ی بات اچھی طرح جانتے تھے کہ لوگوں کی نظر میں لاہور یونیورسٹی میں سیمینار کو روکے جانے کے بعد اس قتل کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے گا دوسری طرف یہ بات بھی سمجھنے کے لیے کسی سائینس کی ضرورت نہیں کہ اس قتل میں ایک واضح پیغام بھی ہے کہ چین کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ پاکستان میں سیکورٹی مسائل کی وجہ سے اقتصادی راہداری کے معاہدے پر نظر ثانی کرے۔
ایک اور فائد ہ اس واقعہ کے بعد یہ ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات اور حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی میں اگر پاکستان کوئی کردار ادا کرنے جا رہا ہو تو اسے احساس دلایا جا سکے اندرونی حالات بہت خراب ہیں ۔یہی وہ وجوہات ہیں کہ ایک تیر سے کئی شکارہو سکتے ہیں پاک چین اقتصادی راہداری میں رکاوٹ، سعودی عرب پاکستان تعلقات میں بگاڑ اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے ایک ایسے ریاستی ادارے کے خلاف پراپیگنڈے کی مہم جس کی وجہ سے بھارت کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتیں بھی پریشان ہیں جس کے آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کی وجہ سے دہشت گردوں کے عالمی سرپرست پریشان ہیں اور سب جانتے ہیں کہ وہ ادارہ کون سا ہے ۔ایسی صورت میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو فوری طور پر نہ صرف اس قتل کے اصل ذمہ داران کو بے نقاب کریں بلکہ ان چہروں کو بھی بے نقاب کریں جو اپنے منہ پر انسانی حقوق کا نقاب پہن کر اپنی ہی ریاست کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔