غور کرتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ ایک عورت کی دل میں اس بات کی کتنی خواہش ہوتی ہے کہ اﷲ پاک اسے اولاد بالخصوص اولاد نرینہ سے نوازدے۔ اور جب اﷲ تعالٰی اسکی اس خواہش کو پورا کردیتا ہے تو اس کے بعد ماں کی تمناؤں اور ارزؤں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ بچہ ابھی محض ایک ہفتے کا ہی ہوتا ہے کہ ماں اپنی تصوراتی دنیا میں اس کے لیے دلہن ڈھونڈنے نکل جاتی ہے۔ نہ صرف دلہن ڈھوندنے نکل جاتی ہے بلکہ وہ دلہن ڈھونڈ کر بیٹے کی شادی بھی کرادیتی ہے اور اس کے بعد پوتے اور پوتیوں سے کھیلنے میں ایسی مگن ہوجاتی ہے کہ اسے اپنے آس پاس کی بھی کچھ خبر نہیں ہوتی۔ ماں اس خوب صورت مگر تصوراتی دنیا سے تب واپس آتی ہے۔ جب اسکا لخت جگر رونے لگتا ہے۔ بچے کے رونے کی اواز سن کر ماں سب کچھ چھوڑ کر بچے کی خدمت میں لگ جاتی۔ بچے کی پرورش اور تعلیم تربیت میں وہ اتنی قربانیاں دے دیتی ہے کہ اس کا تصور ماں کے سوا کسی اور کے لیے کرنا ہی محال ہے۔ اور یوں اس تصوراتی دنیا کو حقیقت کے روپ میں دیکھنے کے لیے ماں کو سخت ازمائش اور انتہائی کٹھن صورت حال سے گزرنا پڑتا ہے۔
یہ ماں کے اپنے بچے کے ساتھ انتہائی دلی لگاؤ اور محبت کا نتیجہ ہے کہ پروردگار عالم نے ماں کی مثال دیکر فرمایا کہ ” میں اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہوں،، اس مثال کو سامنے رکھ کر ذرا غور کیجیے کہ ایک ماں کتی شدت سے اپنے شیر خوار بچے کو جوان اور اس کے سر پر سہرا دیکھنا چاہتی ہے۔ میں نے خود کتنی ہی ماؤں کے منہ سے یہ بات سنی ہے کہ ” میرا تو صرف دل میں ایک ہی ارمان ہے کہ میرے بیٹے کی شادی میری زندگی میں ہوجائے۔ پھر اگر موت آجائے یو کوئی غم نہیں،، یہ ہوتے ہیں ایک ماں کے جذبات۔ کہ اگر زندہ بھی رہنا چاہتی ہے تو صرف اپنی اولاد کی خاطر۔
ذرا سوچیں کہ مذکورہ بالا جذبات کے ساتھ ایک ماں اپنے بیٹے کی بچپن سے لیکر جوانی تک خدمت کرے اور اس کے ناز نخرے اٹھائے یہاں تک کہ اس کے سر پر سہرا سجانے کے دن بھی بالکل قریب آجائے، ایسے میں اگر کوئی ظالم اس ماں سے اسکا بیٹا چھین لے تو اخر اس پر کیا گزرے گی؟؟ یہی ناں کہ اسکا کلیجہ شدت غم سے پھٹ جائے گا۔ اور باقی زندگی وہ زندہ لاش کی مانند گزارے گی۔ وہ کبھی بیٹے کی قبر پر جاکر اس سے لپٹ کر روئے گی تو کبھی بیٹے کی یاد میں راتوں کو اٹھ کر بین کرتی جائے گی۔ کل تک بیٹے کی خاطر جینے کی دعائیں مانگنے والی ماں کہ الفاظ آج یوں ہونگے کہ ” کاش میں بیٹے کی موت سے بہت پہلے مرچکی ہوتی۔
لیکن وہ بیچاری ماں سوائے صبر اور قاتلوں کو کوسنے کی سوا کچھ کر نہیں سکے گی۔ وہ انصاف مانگنے منصفوں کے در پر جائے گی لیکن اسے انصاف نہیں مل سکے گا۔ وہ خود قاتلوں کا کھوج لگانے کی کوشش کرے گی لیکن ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آے گا۔ ایسے میں اسکی زندگی بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔ اور وہ اس کیس کو اﷲ کی عدالت میں پیش کرکے پھر اس تصوراتی دنیا میں چلی جائے گی جس سے واپس آنے میں وہ خود بڑھاپے کی دہلیز پر اس امید کے ساتھ پہنچ چکی تھی کہ بیٹے کے سر پر سہرا سجے گا۔ لیکن اس بار امید کی جگہ یادیں، آہیں اور آنسو ؤں کی بارش کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
Vegetable Market
سوچتا ہوں کہ جو کچھ آج کے اس کالم میں لکھ چکا ہوں یا جو آگے لکھنے جارہاہوں۔ یہ سب ایک خواب ہوتا یا کوئی فرضی کہانی۔ لیکن میرے سوچنے سے کیا ہوگا۔ کیونکہ ظالموں نے ظلم کے جو پہاڑ ڈھانے تھے۔ وہ تو سبی ریلوے اسٹیشن اور اسلام آباد کے سبزی منڈی میں بم دھماکوں کی شکل میں ڈھاچکے۔ اور ان کے جانے کے بعد وہی روایتی بیانات داغنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کوئی اسے حکومتی غفلت کا نتیجہ قرار دے رہے، تو کوئی طالبان کی جانب انگلی اٹھا کر اشارہ کر رہے ہیں حالانکہ ان دونوں دھماکوں کی ذمہ داری بلوچ عسکریت پسند گروپس قبول کرچکے ہیں۔ جبکہ طالبان سبی اور اسلام اباد دونوں الم ناک واقعات کے بڑی سخت الفاظ میں مذمت کرچکے ہیں۔ حکومت نے اسلام آباد دھماکے کی ذمہ داری یہ کہکر سابق پی پی پی حکومت پر ڈال دی ہے کہ انہوں نے ایک سو کروڑ روپے ہڑپ کرکے چار کی بجائے دو اسکینرز نصب کیں تھے اور وہ بھی کام نہیں کر رہے تھے۔ متعلقہ محمکے نے اس حوالے سے کیس بھی نیب کے حوالے کردیا ہے۔
بہر حال یہ تو مختلف لوگوں کے مختلف خیالات ہیں جو کہ کسی بھی ناخوش گوار واقعے کی فوری بعد کچھ ردوبدل کے ساتھ سامنے آتے رہتے ہیں لیکن مجھے تو اس دھماکے میں جاں بحق ہونے والے راوپنڈی کے سجاد خان کی والدہ کا غم چھین سے نہیں رہنے دیتا کیونکہ سجاد کی کچھ ہی دنوں بعد شادی ہونے والی تھی اور اسکی ماں دیگر گھر والوں کے ساتھ مل کر اس کے لیے تیاریاں کر رہی تھیں۔
Terrorists
لیکن دہشت گردوں نے یہ انتہائی وحشیانہ کاروائی کرکے اسے اور اس جیسے دیگر درجنوں خاندانوں پر قیامت ڈھادی۔اور اپنے اس گھناؤنے فعل کو سیکورٹی فورسز کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کا ردعمل قراردیا۔ حالانکہ کسی بھی طور فورسز کی کارروائیوں کی ردعمل میں عام بے گناہ عوام کو بموں سے اڑانا جائز نہیں۔ کیونکہ فورسز کو کارروائی کا آرڈر تو سجاد یا اسکی والدہ نے تو نہیں دیا تھا۔ کہ آپ نے انکی زندگی کی چراغ گل کر اسکی ماں کو ہمیشہ کے لیے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ جہاں پر وہ بے چاری اب تادم مرگ بیٹے کو ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کرے گی۔ بہر حال جو لوگ دہشت گردی کہ ان واقعات میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اﷲ پاک انکی مغفرت فرمایں اور انکی لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔امین۔