مذاکرات بھی جاری ہیں، حکومتی کمیٹیاں طالبان سے جا کر ملتی ہیں، قیدیوں کی رہائی کی بھی باز گشت سنائی دیتی ہے،مذاکرات کی کامیابی کے دعوے بھی کئے جاتے ہیں لیکن دہشت گردی کی لہر رکنے کا نام نہیں لے رہی۔بلوچستان کے بعد اسلام آباد کو ایک بار پھر نشانہ بنایا گیا۔ اسلام آباد لہولہان کر دیا گیا۔اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 11 میں واقع فروٹ منڈی میں آج صبح روزانہ کی طرح مختلف علاقوں سے لائے گئے پھلوں کی نیلامی ہورہی تھی کہ اچانک دھماکا ہو گیا۔ دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز کئی کلو میٹر دور تک سنی گئی۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی مقامی افراد اور مختلف سرکاری اور نجی ریسکیو اداروں کے رضاکاروں نے لاشوں اور زخمیوں کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف اسپتالوں میں پہنچایا جبکہ اسلام آباد پولیس، انسداد دہشت گردی یونٹ، بم ڈسپوزل یونٹ، ایلیٹ فورس اور حساس ادارے کے اہلکاروں نے جائے وقوعہ کا محاصرہ کر کے فروٹ منڈی میں موجود اشیاء کی اسکیننگ شروع کر دی۔سرکاری حکام کے مطابق دہشتگردی کے اس واقعے میں اب تک 23 افراد جاں بحق جبکہ 110 سے زائد زخمی ہوئے ہیں، زخمیوں میں سے کئی کی حالت تشویناک ہے جس کی وجہ سے جاں بحق افراد کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ اسلام آباد کے پمز میں 19 لاشیں اور 74 زخمی لائے گئے، اس کے علاوہ راولپنڈی کے ہولی فیملی اسپتال میں4لاشیں اور 40 زخمی جبکہ بے نظیربھٹو اسپتال میں 4، ڈی ایچ کیو 2 اور ریلوے اسپتال میں ایک زخمی کو لایا گیا۔
واقعے کے بعد قائم مقام آئی جی اسلام آباد خالد خٹک نے میڈیا سے بات کرتے کہا کہ دھماکے میں 5 کلو گرام سے زائد بارودی مواد استعمال کیا گیا جسے امرود کی پیٹیوں میں چھپایا گیا تھا، انہوں نے کہا کہ پولیس کوحساس اداروں کی جانب سے فروٹ منڈی میں دہشتگردی کی کسی کارروائی سے متعلق کوئی اطلاع نہیں تھی، نہ ہی سبزی منڈی میں آنے والے ہر ٹرک اور ہر شخص کو چیک کرنا ممکن ہے۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے پولیس حکام سے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ صدرمملکت ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف، پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری، وزیراعلی پنجاب، وزیر اعلیٰ و گورنر سندھ ، نو منتخب امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور دیگر سیاسی و مذہبی شخصیات نے فروٹ منڈی بم دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جانی و مالی نقصان پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔
Hafiz Mohammad Saeed
امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد فروٹ منڈی بم دھماکہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے بے گناہ افراد کے جاں بحق ہونے پر گہرے رنج و غم کااظہار کیا اور کہاکہ بھارت سمیت دیگر اسلام دشمن قوتیں کسی صورت پاکستان امن نہیں چاہتیں۔ دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اسلام آباد دھماکے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، عوامی مقامات پر بے گناہ لوگوں کا قتل شرعا حرام اور ناجائر ہے۔ دھماکے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف سرکاری مدعیت میں تھانہ سبزی منڈی میں درج کر لیا گیا ہے، مقدمے میں دفع 324، 302 اور سیون اے ٹی اے شامل کی گئی ہیں۔ سبی ٹرین بم دھماکے کے بعد اسلام کی فروٹ منڈی میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری بھی یونائیٹڈ بلوچ آرمی نامی تنظیم نے قبول کرلی۔
اسلام آباد فروٹ منڈی میں دھماکے کے بعد پولیس کی بھاری نفری نے امرود کی پیٹیاں اسلام آباد لیجانے والی گڈز ٹرانسپورٹ کے مالک شیخ جہانگیر اور اسکے بیٹے کو حراست میں لیکر تفتیش شروع کر دی ہے۔ ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ ٹرک نمبر LASـ1612 پر شرقپور اور ننکانہ کے مختلف علاقوں سے امرود کی 365 پیٹیاں اسلام آباد روانہ کی گئیں۔ 9 باغات کے مالکان جن میں بابا علی’ محمد حنیف’ محمد طفیل مانگٹانوالہ’ رنگ الٰہی’ محمد صدیق’ شہباز’ ساجد محمد آصف’ وکیل احمد’ باالترتیب کوٹ محمود’ ساہجووال’ فیض آباد اور نور منڈی کے رہائشی ہیں’ کی پوری تفصیلات حاصل کی جارہی ہیں کہ ان کا کسی دہشت گرد تنظیم یا دہشت گردوں سے بلواسطہ یا بلاواسطہ رابطوں کا پتہ چل سکے تاہم سپیشل برانچ اور دیگر خفیہ اداروں کے افسران نے بھی اس حوالے سے شرقپور کے مختلف علاقوں سے معلومات اکٹھی کرنا شروع کردی ہیں۔
سبزی منڈی اسلام آباد میں بدھ کے روز 14 برس بعد دہشت گردی کا دوسرا واقعہ رونما ہوا۔ پہلا دھماکہ ستمبر 2000ء میں اسی جگہ اور تقریباً اسی وقت ہوا تھا جب انگور کی پیٹیاں ٹرکوں سے اتاری جا رہی تھیں۔ اس وقت 35 سے زائد مزدور اور خریدار جاں بحق ہوئے تھے جبکہ بڑی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے۔ 14 سال بعد بدھ کے روز 9 اپریل کو اسی طرز کا یہ دھماکہ امرود کی پیٹی میں ہوا۔ حالیہ دنوں میں سبزی منڈی اور فروٹ منڈی میں بھی سکیورٹی کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر بڑے پیمانے پر انتظامات بھی ہوئے لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کا یہ واقعہ ہوگیا۔ سبزی منڈی کی سکیورٹی کیلئے علاقے میں گزشتہ چند ماہ کے دوران کئی سرچ آپریشن بھی ہوئے اور بڑی تعداد میں لوگوں کو مشکوک قرار دیکر پولیس نے اپنی حراست میں بھی لیا۔ تین ماہ قبل سبزی منڈی میں بھتہ خوری کے الزام کے تحت بھی وہاں کے تاجروں اور مزدوروں کو پکڑا گیا جن میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے بھتہ خوری کے اس کیس کی تفتیش کے بعد سبزی منڈی کی اندرونی سڑک کو تجاوزات سے پاک کرنے کے دعوے بھی کئے گئے اور ٹریفک پولیس اسلام آباد نے وہاں اپنی نفری بھی لگائی، ان تمام اقدامات کے باوجود دہشت گردی کا یہ واقعہ رونما ہوجانا پولیس اور وفاقی دارالحکومت کی سکیورٹی کیلئے سوالیہ نشان ہے۔گزشتہ ماہ بھی اسلام آباد کے ایف ایٹ سیکٹر میں واقع کچہری میں ہونے والے خود کش حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں ایڈیشنل سیشن جج سمیت 11 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
فروٹ منڈی تقریباً 25 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے جہاں روز ہزاروں گاڑیاں اور لوگ آتے ہیں اس لئے ہر کسی کی بغیر جدید آلات کے چیکنگ کرنا ممکن نہیں، چیکنگ کے لئے اسکینرز کی ضرورت ہے، پچھلے 5 سالوں میں 100 کروڑ روپوں سے 4 اسکینرز خریدے گئے جن میں سے بھی 2 آئے اور وہ بھی کام نہیں کرتے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے فروٹ منڈی دھماکے کے خلاف سینیٹ میں تحریک التوا جمع کرادی ہے۔ طالبان نے فوری اس واقعہ کی مذمت و تردید کی ہے ۔اس تردید کے بعد حکومت جو پہلے کسی بھی واقعہ کی ذمہ داری طالبان پر ڈال دیتی تھی اب کیا بنے گا۔مذاکرات کے ہوتے ہوئے بھی عوام محفوظ نہیں، جو حالات چل رہے ہیں کوئی بھی گھروں سے نہیں نکلے گا۔پہلے مساجد پر،مدارس پر،امام بارگاہوں پر، مزاروں پر، بازاروں میں ،بلکہ حساس اداروں پر بھی حملے ہوئے جو اب فروٹ منڈیوں تک پہنچ گئے جہاں عوام کا ر ش ہوتا ہے۔اسلام آباد سبزی منڈی میں بم دھماکے کے بعد حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل متاثر ہونے کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں جبکہ گذشتہ تین روز کے دوران ملک بھر میں دہشت گردی کی مختلف وارداتوں کے بعد مذاکراتی عمل کیلئے نئے مسائل اور سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ اسلام آباد کچہری دھماکے کے بعد حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
حکومت پر ایک ماہ اور چھ روز کے دوران وفاقی دارالحکومت میں دہشت گردی کی دو بڑی وارداتوں کے بعد اپوزیشن اور دیگر لحاظ سے دبائو بڑھ چکا ہے جبکہ ایم کیو ایم کی جانب سے پہلے ہی دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس واقعہ کے بعد مذاکراتی عمل کے متاثر ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے واقعہ سے لاعلمی کے اظہار نے بھی حکومت کو شش و پنج میں مبتلا کر دیا ہے۔ان دھماکوں میں کونسی قوت ملوث ہے حکومت کو جلدی تحقیقات کر کے عوام کے سامنے لانا ہو گا تا کہ خوف کی کیفیت ختم ہو۔ملزمان بے نقاب ہوں گے، سزائیں ملیں گیں تو عوام مطمئن ہو گی اور اگر صاف یہ کہا جاتا رہا کہ اسلام آباد محفوظ شہر ہے۔
اسکی سیکورٹی کے لئے فول پروف انتظامات کئے گئے ہیں انہیں فول پروف سیکورٹی میں عوام مزید بہتا خون نہیں دیکھ سکتی،اب حکومت کو دوٹوک فیصلہ کرنا ہو گا۔