تحریر : ڈاکٹر حسن عبدالباقی نبی اکرم کا فرمان ہے کہ”ہرانسان کو روز محشر اللہ تعالی معاف کر دیں گے مگر قاتل و ناحق خون بہانے والے کی بخشش نہیںہوگی”قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے کہ ”نہ قتل کروکسی نفس کو جسے اللہ نے حرام کردیا ہے مگر حق کے ساتھ”اسی طرح وارد ہواہے کہ”نہ قتل کرو اپنی جانوں کو بیشک اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے”ہابیل و قابیل کے واقعہ میں بغض و عداوت اور تعصب و حسد کی آگ کا مظہر ملتا ہے کہ بھائی نے بھائی کا خون ناحق بہادیا کسی انسان کو قتل کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کے مرتکب کا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم ہے اور اس قاتل پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور لعنت ہے اور بڑے عذاب کا وعدہ بھی۔نبی کریمۖ نے انسان کے قتل کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا ہے اور جس حدیث میں آپۖ نے مسلمانوں کو ساتھ بڑے جرائم سے دوررہنے کا حکم دیا ہے اس میں خون بشر کو ناحق بہانے سے بھی روک دیا ہے۔
ضروری ہے کہ ہم مقتول کے بارے میں بھی واقفیت حاصل کریں کہ اگر قتل ہونے والا مسلمان ہے تو اس کے خون کو بہانا واضح طورپر حرام کردیا گیا ہے قرآن پاک میں یہ حکم نازل ہواہے کہ ”جس کسی نے جان بوجھ کر کسی انسان کو قتل کیاتو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے جس میں ہمیشہ رہے گا اور اللہ کا غضب و لعنت کا مستحق ہوگا اور اس کیلئے تیار ہے بڑاعذاب”اور اگر مقتول غیر مسلم ہو تو اس کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے جبکہ مقتول ذمی ہو جو معاہدہ کے ساتھ اسلامی ریاست میں مکین ہو تو اس کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری بھی مسلمانوں پر عائد ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اس کے بدلہ میں جزیہ یا ٹیکس اداکرتے ہیں۔
حضوراکرمۖ نے فرمایا ہے کہ” جس کسی نے ذمی کو قتل کیا وہ جنت کی ہوا بھی نہیں سونگھ سکے گا۔۔۔”یہ اس لئے ہے کہ غیر مسلموں کو معاہدہ کے ساتھ امان دی گئی ہے اور وعدہ کو ایفا کرنا لازمی ہے جیساکہ قرآن حکیم میں ذکر ہواہے”اور اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو جب تم آپس میں قول و قرار کرو اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد مت توڑو، حالانکہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنا ضامن ٹھہراچکے ہو،تم جو کچھ کرتے ہواللہ اس کو بخوبی جانتا ہے”۔
Killing
بدقسمتی سے موجودہ حالات میں اسلامی ممالک میں خون ناحق سیل بے کراں کی طرح بہایا جارہاہے ایسا کیوںہے کیوںکہ بدلہ و انتقام کی آگ نے معاشروں کو کھوکھلا کردیا ہے کہ ہر فرد اس فساد میں مبتلاہوجاتاہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی اسلامی ملک اس طورپر ترقی کرلے کہ اس میں فتنہ و فساد کی فراوانی و کثرت ہو اور چہاراطراف میں قتل و قتال کا بازار گرم ہونے سے معاشرہ داخلی و بیرونی طورپر مضطرب ہوچکا ہو۔جبکہ ہر ملک میں اس امر کو یقینی بنایا جاتاہے کہ استقرار وطن کی خاطر گروہی تقسیم و مذہبی و لسانی اور جنسی تفریق سے بالاتر ہوکر سعی کی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام کی پہلی اسلامی ریاست مدینہ منورہ میں مسلمان رواداری و محبت اور برداشت کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے یہود و نصاری، مشرکین اور قبائلی تقسیم اوس و خزرج کے ساتھ منافقین جو کہ دین اسلام اور نبی کریمۖ کی جان کے سب سے زیادہ دشمن تھے کے ساتھ بھی معاشرت قائم رکھی ۔جس کی وجہ سے پیام ِامن و محبت چہار دانگ پھیلا کہ اسلامی ریاست میں خوشگوار معاشرت قائم ہے اور نبی اکرم نے یہ صرف ایک شرط پر مثالی معاشرہ تشکیل دیا کہ کوئی ایک دوسرے پر چڑھائی، غداری نہیں کرے گا۔
ملک و ملت کی حفاظت دین و مذہب میں سے ہے جبکہ تقسیم وتفریق اور تشکیک کا دورسے بھی دین کے ساتھ واسطہ و رابطہ استوار نہیں ۔ملک و قوم کو استحکام و استقرار دینے کے بہت سے وسائل موجود ہیں جن کو استعمال کرکے مثبت و پرامن جدوجہد کے ذریعہ اپنے ملک و ملت کو مضبوط و طاقتور بنایا جائے قبل اس کے کہ منفی و عصبی سرگرمیوں کو اختیار کرنے میں قتل و قتال اور فتنہ و فساد کے ماحول میں وقت ضائع کیا جائے یعنی ضروری ہے کہ کسی بھی طاقتور و جامد چیز کا مقابلہ کرنے کی بجائے خون بشر کی حفاظت کرکے اپنی قوت و طاقت کو مجتمع کیا جائے۔