ہم کب سدھریں گے ؟

inflation

inflation

تحریر: ریاض احمد ملک
وطن عزیز ہم نے بے پناہ قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے اس بات سے کسی کو انکار نہیں مگر اس کی تباہی میں ہم سب برابر کا حصہ ڈالنے میں مصروف ہیں آپ کسی محفل میں بیٹھیں وہاں اس کو تباہ کرنے کی باتیں ہی سنی جا رہی ہو گی مگر ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اسکو کون تباہ کر رہا ہے اس موضوع جو اس وقت سب سے زیادہ زیر باعث ہوتا ہے وہ وہ ہے مہنگائی اب حکومتی شخصیت اپنا خیال ظاہر کر رہی ہوتی ہے کہ مہنگائی سابقہ دور کا شاخسانہ ہے۔

جب کہ اپوزیشن یہ دلائل دے رہی ہوتی ہے کہ حکومتی ناقص کرکردگی کا شاخسانہ مہنگائی ہے اب یہ بتائیں کہ حکومت نے تو جو کرنا ہے کرتی ہے اپوزیشن نے بھی جو وار کرنا ہوتا ہے کرتی ہے ہم لوگ کیا کر رہے ہیں مہنگائی بھی ہماری اپنی وجہ سے ہے آپ دیکھیں کہ سابقہ دور میں جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان شروع ہوا تو ہم نے چاہے ہمارا تعلق کسی شعبے سے تھا مہنگائی کو طول دینے میں کیا کردار نہیں کیا اب ڈاکٹر کس پیٹرول سے چلتا تھا اس نے اپنی فیس چار گناہ کر لی نائی کو دیکھیے اس کی کس چیز پر ٹیکس لگا یا وہ بھی پیٹرول سے چلتا تھا اس نے بال کاٹنے اور شیو کے کتنے پیسے بڑھائے ہوٹل وا لا بھی شائد پیٹرول سے ہی چلتا تھا۔

اس نے چائے کی پیالی 20روپے تک پہنچا د ی روٹی کا وزن کم کر کے اس کی قیمت کہاں پہنچا دی اب زمیندار کو دیکھیں بہا نہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا سبزی فروٹ کی قیمتیں کہا ں پہنچا دیں انہیں زرداری مشرف یا نواز شریف کی آشیرباد تو نہیں تھی کیا،،،،؟اصل میں ہم سب لوگ خود ہی مارتے ہیں اور خود ہی روتے ہیں اب جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان چل رہا ہے اگر ہمیں کوئی کہے کہ یار اب تو اپنی فیسیں کم کر لو چائے کا ریٹ کم کر لو روٹی فروٹ کی قیمتیں کم کرو تو جواب دینے کے لئے بے پناہ دلائل سامنے آتے ہیں مگر مہنگائی کو کم کرنے میں ہم لوگ کسی قیمت پر بھی سمجھوتا نہیں کر سکتے ہیں۔

کیونکہ ہم اصل میں ہڈ حرام ہو چکے ہیں اور ہم تمام نزلہ موجودہ حکومت پر ہی ڈالتے ہیں موجودہ سے میرا مطلب جو حکومت اس وقت ہوتی ہے قارئین حکومت جو بھی ہوتی ہے اس نے کبھی اپنے عوام سے زیادتی کا نہیں سوچا سوچتے صرف پالیسی ساز ہوتے ہیں حکمران بیچارے تو صرف غریبوں کے بارے میں سوچتے ہیں اب مسلئہ صرف اتنا ہے کہ ان کو غریب لفظ سے تو شناسائی ہے غربت سے نہیں ہمارے ملک میں جتنے بھی حکمران آئے ہیں وہ جاگیردار وڈیرے لوگ ہیں انہوں نے کبھی غربت یا غریب کو قریب سے دیکھا ہی نہیں ان کی مثال تو یہ ہے کہ ایک کتابی کیڑا جس نے پریکٹیکل کیا ہی نہ ہو وہ تو تباہی کا سبب ہی بنے کا اس کے لئے پریکٹیکل ضروری ہے۔

Poor Peoples

Poor Peoples

تب وہ کسی کام کا ہو گا تھیوری سے اصل حقیقت سامنے نہیں آتی خلفائے راشدین کی حکمرانی آپ کے سامنے ہے جنہون نے راتوں جاگ کر اپنی عوام کی حقیتیں جانیں اور ان کا ازالہ بھی کیا مگر یہاں تو معامہ ہی کچھ اور ہے اگر کسی شہر میں وزیر اعظم آ رہا ہوتا تو اس شہر میں غریب کا داخلہ ممنوع ہو جاتا ہے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر مٹی ڈال کر موٹروئے بنا دیا جاتا ہے اگر ایسا نہ بھی کیا جائے تو وزیر اعظم کی کالے شیشوں والی کار یا پجارو میں جمپ لگنے کا تو تصور ہی نہیں ہوتا راتوں رات گندگی صاف کر کے چونا لگا کر وزیر اظم کو بھی چونا لگایا جاتا ہے کہ اب تو یہاں سب اچھا ہے من پسند کے کچھ امیر جو غریب نما ہوتے ہیں کو ان سے ملوایا جاتا کہ اب غربت ختم ہو چکی ہے حکومت نے ان دنوں غریب بے کس لوگوں کے لئے فنڈ دئے ہیں لائیو سٹاک بیوہ عورتوں کو جانور فراہم کررہی ہے اس کے لئے فارم ویٹرنری ہسپتالوں میں دستیاب ہیں مگر کیا مجال کسی بیوہ کی رسائی ان فارمون تک ہوئی ہو حکومت یا اعلیٰ عدالتیں نوٹس لیں تو لاکھ پتی ہزاروں افراد اس نعمت سے مستفید ہو چکے ہوں گے اب حکومت کی نیت پر تو شبہ نہیں کیا جا سکتا نان انہوں نے تو غریب کے لئے کچھ نہ کچھ تو کیا اب انکم سپورٹ کو ہی لیجئے ایک سروئے کیا گیا جس میں شائد نشاندہی کی گئی کہ لاکھ پتی غریب یہاں یہاں رہتے ہیں کیا مجال کہ کسی غریب کو ایک ٹکہ بھی ملا ہو بینک میں ان غریبوں کی لائینیں دیکھی جا رہی ہونگی اور اصل غریب حسرت بھری نظروں سے ان لا کھ پتی غریبوں کو ان کا حق کھاتے دیکھ رہے ہوں گے۔

اب بتائیں کہ مہگائی اور دیگر برائیاں کہاں سے آ رہی ہیں حکومت کا کیا کردار ہے اور ہمارا کیا،،،،؟ہمیں ان برائیوں کے کلاف جہاد کرنے کی ضرورت ہے مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام کرے کوں جس معاشرے میں سب چور ہوں وہان اچھائی کی توقع کس سے کریں بس ہم حکومتوں کو کوس کر وقت گزاری کرتے رہیں گے اور خود ہی اس برائی کا حصہ بنتے رہیں گے جب الیکشن آتے ہیں تو اپوزیشن والے ہمیں بتائیں گے کہ حکومت کی ناقص کارگردگی کی وجہ سے ہم لوگ مسائل کی دلدل میں پھنس گئے ہیں۔

جبکہ حکومتی افراد ہمیں اپنی کارکردگی کا بتائیں گے جسے ہم لوگوں نے خود ہی پس پردہ ڈال کر اپنے آپ کو تباہی کی راہ پر ڈال رکھا ہے ہم کسی نہ کسی کے جال میں پھنس کر نااہل لوگوں کو منتخب کر لیں گے جو اپنوں کو سنوارنیں گے اور غریب کسی آنے والے مسیحا کا خواب دیکھتے رہیں گے اب جبکہ الیکش آ رہے ہیں خدا راہ یہ ضرور دیکھیئے گا کہ کوں سا امیدوار اچھے کردار کا مالک ہے اور کون سا ،،،،؟ اپنے ضمیر کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیجئے گا کہ ووٹ کسے دینا ہے برادریوں اور وڈیروں کے جال سے ایک بار نکلئے انشااللہ مسائل بھی ختم ہو جائیں گے اور ملک سے برائی بھی۔

Riaz Malik

Riaz Malik

تحریر: ریاض احمد ملک بوچھال کلاں