تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ ن لیگ کی قیادت کی لاکھ کوششوں کے باوجود اور میاں نواز شریف اپنی بھرپور کوششوں میں ہیں کہ کسی طرح بھی اداروں کو بر انگیخت کیا جائے تا کہ محاذ آرائی کے جواب میں کوئی ایسا اقدام ہو جائے جس سے ان کی حیثیت ’’مظلوم ‘‘ کی ہو جائے۔ لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر لندن میں فلیٹس کے معاملے یعنی ایون فیلڈ ریفرنس میں فردِ جرم عائد کی گئی۔ نواز شریف پر فردِ جرم ان کی غیر موجودگی میں عائد کی گئی اور ان کے نمائندے وکیل ظافر خان نے اپنے موکل کی ہدایت پر صحت جرم سے انکار کیا۔ عدالت میں موجود مریم نواز اور کیپٹن صفدر نے بھی صحت جرم سے انکار کیا ہے۔ اس سے قبل عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی ٹرائل روکنے جب کہ مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کی گزشتہ روز فرد جرم عائد نہ کرنے کی درخواستوں کو مسترد کر دیا۔ نوازشریف کی جانب سے احتساب عدالت میں ٹرائل روکنے کی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ میں تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے کی نظر ثانی اپیل دائر کر رکھی ہیاس لیے فیصلے تک ٹرائل روکا جائے۔دوسری جانب مریم نواز اور کیپٹن صفدرکی جانب سے فرد جرم کی کارروائی روکنے کی استدعا کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ والیم 10 اورتین گواہان کے بیانات کی کاپیاں فراہم کرنے تک فرد جرم روکی جائے، قانون کے مطابق ایف آئی آر اور بیانات کی کاپیاں فراہم کرنا ضروری ہے۔احتساب عدالت کی جانب سے ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد نواز شریف کی جانب سے تینوں ریفرنسوں پر ایک ہی فرد جرم اور ایک ہی مرتبہ جرح کے لیے نئی درخواست دائر کی گئی جس میں تینوں مقدمات میں ایک ہی ٹرائل کرنے کی استدعا کی گئی۔ شریف خاندان کی ریفرنس یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ ہے۔
میاں نواز شریف کے ماضی پر نظر دورائیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ اپنے مقصد اور مطلب براری کیلئے میاں نواز شریف نے کسی اصول یا قاعدے کی کبھی پروا ہی نہیں وہ خواہ مرکز گریز پالیسی رہی ہو یا عدالتوں کا احترام۔میاں صاحب نے ہمیشہ اپنے مطلب کے حصول کو ترجیح دی اور ببانگ دہل کہا کہ ان کی طاقت ان کی محاذآرائی میں پوشیدہ ہے اور آج بھی صورتحال ایسی ہی ہے کہ میاں صاحب اتنے حقائق سامنے آنے کے باوجود انہیں تسلیم کرنے کی بجائے ایک بار پھر محاذ آرائی پر تلے نظر آتے ہیں۔ پاناما کیس میں جہاں کئی حکمران اپنے عہدوں سے رخصت ہوئے،میاں صاحب نے اولاً اس کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا اور بعد ازاں سپریم کے از خود نوٹس پر(جب ملک میں انتشار و انارکی کا شدید خطرہ پیدا ہوا)بھی ٹھوس ثبوت فراہم کرنے کی بجائے فقط قطری خط کا سہارا لینے کی کوشش کی۔
سپریم کورٹ نے اس کیس کی تفصیلی جانچ پڑتال کرنے کی خاطر ملک کے بہترین متعلقہ افسران پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے مگر افسوس کہ وہاں بھی شریف خاندان ٹھوس ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا لیکن اس تفتیش کے دوران جے آئی ٹی نے اقامہ کی بے ضابطگی بھی تلاش کر لی جو رائج قانون کے مطابق نا اہلی کی مضبوط وجہ بنی مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے ایک بار پھر اداروں پر طعن و تشنیع کے ساتھ ساتھ شدید تنقید کرتے ہوئے انہیں مطعون کیا گیا،جس کا مقصد صرف اور صرف عوام کو حقائق سے گمراہ کرنا تھا۔ ایک عجیب قسم کا نعرہ مستانہ وجود میں لایا گیا کہ مقدمہ تو پانامہ سے متعلق تھا مگر فیصلہ اقامہ پر کیا گیا،کس قدر لغو بات ہے کہ حکمران فقط اپنی ذات کو بچانے کی خاطر اداروں کی نہ صرف تضحیک کرتے رہے بلکہ ان کے دائرہ کار کو بھی محدود کرنے کی بھونڈی کوشش کی۔ اسلام آباد سے لاہور تک ایک ہی گردان کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ جو کلیتاً بے بنیاداور عوامی جذبات کو انگیخت کرنے کا بہانہ تھامگر پھر بھی کامیابی نصیب نہ ہوئی کہ متعلقہ اداروں نے انتہائی صبر و تحمل سے اس بے بنیاد پراپیگنڈے کا سامنا کیا مبادا کہیں اس کے جواب سے ملکی مفادات متاثر نہ ہوں اور مقدمے کی ہیئت ،ملزمان کی حیثیت نہ بدل دے اور ملزمان جس صورتحال کے متلاشی ہیں انہیں وہ بنیاد نہ مل جائے۔
سیاسی شہادت کے متمنی ابھی تک اپنے ترکش کے تمام تیر آزما رہے ہیں کہ کسی طرح سے متعلقہ ادارے ماورائے آئین رد عمل کا مظاہرہ کریں تا کہ ا ن سیاسی یتیموں کی نہ صرف بن آئے بلکہ لوٹ مار کا وہ تمام مال بھی محفوظ ہو جائے جو انتہائی ’’محنت‘‘ سے پاکستان کو لوٹ کر کمایا گیا ہے۔ میاں نواز شریف اپنی بھرپور کوششوں میں ہیں کہ کسی طرح بھی اداروں کو بر انگیخت کیا جائے تا کہ محاذ آرائی کے جواب میں کوئی ایسا اقدام ہو جائے جس سے ان کی حیثیت ’’مظلوم ‘‘ کی ہو جائے،احتساب عدالت میں ایک طرف تو قانونی موشگافیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہو رہی ہے تو دوسری طرف مٹھی بھر افراد کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ عدالتوں میں ایسا رویہ اختیار کریں جس سے عدالتیں اپنا کام کرنے سے قاصر ہوں۔ احتساب عدالت میں 13اکتوبر کی پیشی کے دوران ہنگامہ آرائی اسی امر کا مظہر تھی کہ عدالتوں کو دباو میں لایا جائے جبکہ اس سے قبل گزشتہ پیشی پر رینجرز کی موجودگی کو چیلنج کیا گیا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست برداشت نہیں کی جائے گی مگررینجرز کی عدم موجودگی میں جو حال پنجاب پولیس کے افسران کا ہوا،اس نے رینجرز کی موجودگی کو درست ثابت کیا اور اس کے ساتھ ہی ملزمان کے گھناونے مقاصد کو بھی بے نقاب کر دیا۔
ماہرین کا خیال میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اس مرتبہ بھی محاذ آرائی کے نتیجے میں خود کو مظلوم ثابت کر پائیں گے یا پھر غیر آئینی قدم اٹھایا جائے؟ وہی ہواجو قانون کے مطابق تھاکہ نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر لندن میں فلیٹس کے معاملے یعنی ایون فیلڈ ریفرنس میں فردِ جرم عائد کی گئی۔