قارئین اس کالم کو غور سے پڑھنے کی درخواست ہے ۔جمہوریت کے بارے میں ہمارے رہنمائوں ،دانشوروں کی ہزاروں مرتبہ سنی ہوئی چند باتیں ایک بار مجھ سے پھر سن لیں جمہوریت ایک نعمت ہے ،جمہوریت سب سے بہترین انتقام ہے ،جمہوریت کے لیے ہر طرح کی قربانی دیں گے،ہم نے جمہوریت کے لیے بہت قربانیاں دیں ہیں ،ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں ،جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے ،ہم جمہوریت بچانے آئے ہیں ،جمہوریت نہ رہی تو پاکستان کی بقا کو خطرہ ہے ۔جمہوریت ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔
توجہ طلب دو باتیں ہیں اول یہ کہ دنیا میں کسی بھی ملک میں جمہوریت نہیں ہے اور دوسری بات اسلام اور جمہوریت دو الگ نظام حکومت ہیں ۔پہلے دوسری بات کرتے ہیں ۔اللہ سبحان و تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا ۔”جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا طالب ہو گا وہ اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا” (آلعمران 85 ) اب کوئی اگر یہ کہے کہ جمہوریت دین نہیں ہے تو میں نے اسے ایسا کیوں لکھ دیا ہے ۔دین کا مطلب نظام حیات ہے قانون سازی اور ان پر عمل کا طریقہ کار ہے اور یہ ہی تو جمہوریت ہے دوبارہ پھر دیکھیں اللہ تعالی نے فرمایا ہے جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا طالب ہو گا مطلب یہ کہ کسی اور نظام کا طالب ہو گا اسلام کے علاوہ اسلام اور دین میں بھی فرق ہے۔ دوسری چیز جمہوریت ہے جو اسلام کی ضد ہے اور یونانی نظریات پر مبنی عیسائیوں اور یہودیوں کا پھیلایا ہوا طاغوتی نظام ہے کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اسلام اور جمہوریت دو برعکس اور متصادم نظریات ہیں۔
ان کاآپس میں کوئی میل اور تعلق نہیں ہے ،جمہوریت ایک طاغوتی نظام ہے۔اس کا کسی بھی صورت میں ساتھ دینا اسلام میں درست نہیں ہے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہندو اور مسلم کا فرق کیا ہے ان کا،، نظام زندگی ،،یہی تو د و قومی نظریہ تھا، جو پاکستان کی بنیاد بنا ۔ بات ہو رہی ہے جمہوریت اور اسلام کی آئیںان کا موازنہ کرتے ہیں ۔اسلام میں مقتدرِ اعلیٰ ذات صرف اللہ سبحان و تعالیٰ ہے ۔تمام طاقت کا سرچشمہ اللہ ہے ۔البقرہ ۔165 ۔جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ۔ اللہ نہیں ہے بلکہ اللہ کی مخلوق ہے ۔اسلام میں قانون اللہ کے ہیں مثلا حرام و حلال ،وراثت،عدلیہ،وغیرہ ۔اللہ کی حکومت ،اللہ کے بندوں کے ذریعے یعنی اللہ کے بنائے ہوئے قوانین پر اللہ کے بندوں کے ذریعے عمل ان کے اختیارات کا بھی ایک دائرہ ہوتا ہے۔
جمہوریت میں قانون سازی کا اختیار عوام کے نمائندوں کو حاصل ہوتا ہے (ان کے ایسے معبود ہیں جنہوں نے اللہ کی اجازت کے بغیر ان کے لیے کوئی دین بنا دیا ہے؟ سورة شوریٰ ۔آیت 21 ) جمہوریت میںقانون اللہ کے بندے بناتے ہیں۔اب ایک بات بہت غور طلب ہے کہ اسلام کہتا ہے لوگوں کی اکثریت گمراہ ہوتی ہے سورة انعام آیت نمبر 117 میں اللہ کا واضح فرمان ہے کہ” اور اگرتم زمین پر رہنے والے لوگوں میں سے اکثر لوگوں کی اطاعت کر و گے تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے گمراہ کر دیں گے” ۔ دوسری طرف جمہوریت کا تمام دارومدار اکثریت پر ہے دو جاہلوں کی رائے ایک عالم کی رائے پر بھاری ہوتی ہے۔اسلام میں عالم اور جاہل برابرنہیں ہو سکتے لیکن جمہوریت میں برابر ہیں۔
اس بات کی وضاحت ایسے بھی ہو سکتی ہے کہ دنیا میں اگر 7 ارب آبادی ہے تو ان میں سے ایک ارب 90 کروڑ مسلمان ہیں اور اکثریت مسلمان نہیں ہے جمہوریت میں تو مسلمانوں کو ان کی پیروی کرنی چاہیے اپنا دین چھوڑ دینا چاہیے میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اکثریت گمراہ ہوتی ہے ۔جمہوریت کا نظام اکثریت کا نظام ہے اس لیے یہ درست کیسے ہو سکتا ہے ۔جمہوریت میں آپ قانون سازی کے ذریعے شراب ،جوا،زنا،ہم جنس پرستی ،مطلب جو دل چاہے اسے جائز کر سکتے ہیں امراء کے لیے الگ اور غربا کے لیے الگ قانون بنا سکتے ہیں جمہوریت میں بعض افراد پر قانون کا اطلاق نہیں کر سکتے ان کو استثناحاصل ہوتا ہے لیکن اسلام میں ایسا نہیں ہے ۔خلیفہ وقت کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔
Justice
اسلامی انصاف اور قانون کی نظر میں اولاد آدم سب برابر ہے ۔اب آتے ہیں پہلی بات کی طرف دنیا کے کسی ملک میں بھی جمہوریت نہیں ہے۔ اورسب جمہوری کہلانا چاہتے ہیں ۔ وہ بھی ڈنڈے کے زور پر ۔آپ اقوام متحدہ کو ہی دیکھ لیں وہاں پانچ ممالک کو ویٹو کا حق دیا گیا ہے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا یہ جمہوریت ہے ؟؟ اب ساری دنیا کے ووٹ اگر کسی قرارداد پر ایک طرف ہوں اور صرف امریکہ یافرانس وغیرہ میں سے کوئی اس کے خلاف ووٹ دے تو اس قرار داد پر عمل روک دیا جاتا ہے تو یہ کہاں کی جمہوریت ہے ۔دنیا میں جہاںمکمل جمہوریت ہے کہا جاتا ہے (مان لیں ان کے پاس ڈنڈا بھی ہے) ان کی تعداد بہت کم ہے۔ (جو خود کو جمہوریت کے چیمپین کہتے ہیں ان کا اسرار ہے
اسے حقیقی جمہوریت کہا جائے) پوری دنیا میں جمہوریت کا نظام بری طرح ناکام ہو چکا ہے بلکہ ہے ہی نہیں لیکن اس سے جن کے مفادات وابستہ ہیںوہ اسے قائم رکھنا چاہتے ہیں اسے سب سے بہترین نظام حکومت کہا جاتا ہے کہنے والے طاقت ور ہیں اس لیے سب مان رہے ہیں کہ وہ درست ہی کہتے ہیں ۔بہت افسوس کی بات ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اس میں اسلامی نظام رائج نہیں ہے اور جن کو اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے وہ بھی جمہوریت کا راگ الآپ رہے ہیں اور اسے اللہ کی نعمت قرار دے رہے ہیں ۔اسلامی نظام حکومت اور جمہوریت میںفرق ہے قارئین آپ کیا کہتے ہیں اپنی رائے دیں۔