اسلام کی کوئی بھی عبادت صرف رسم نہیں ہے۔ قربانی بھی ایک عظیم عبادت ہے جس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ افسوس کہ ہم میں سے بیشتر لوگ یا تو ان حکمتوں کو سمجھتے نہیں یا سمجھتے بھی ہیں تو انہیں اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش نہیں کرتے۔
قربانی دراصل کسی کی رضا و خوشنودی کے لیے اپنی رضا و خوشنودی کو ترک کر دینے کا نام ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اللہ کی رضا کے لیے اپنے نور نظر، لخت جگر اسماعیل علیہ السلام کو راہِ خدا میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی ابتدا حضرت آدمؑ کے بیٹے قابیل اور ہابیل کی قربانیوں سے ہی ہو چکی تھی۔
وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْقَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ“۔المائدہ:۱۸۳ ترجمہ:۔”اور آپ اہلِ کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجیے، جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہو گئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
قربانی کا مادہ “قرب” ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قربانی کا اصل مقصد کسی کا قرب حاصل کرنے کے لیے اپنی خوشی کو چھوڑ دینا ہے۔ کسی انگریز مفکر کا قول ہے : The greatest sacrifice is when you sacrifice your own happiness for the sake off someone else.
قربانی رشتوں کو مستحکم کرتی ہے۔ اگر قربانی کسی فرد یا سماج کے لیے پیش کی جائے گی تو ہمارا رشتہ اُس فرد اور سماج سے مستحکم ہوگا۔ اسی طرح خدا کے لیے پیش کی جانے والی قربانی خدا سے ہمارے رشتوں کو مستحکم کرے گی۔ کسی نے بالکل صحیح کہا ہے :
A strong relationship starts with two brave people who are ready to sacrifice anything for one another.
جان کی قربانی تو قربانی کی معراج ہے۔ اگر ہم کسی کی محبت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا سعادت سمجھتے ہیں خواہ وہ محبت خدا کی ہو، وطن کی ہو یا کسی اور کی تو پھر یقیناً چھوٹی موٹی قربانی ہمارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
قربانی کا تیوہار ہمیں یہی پیغام دیتا ہے کہ ہم خدا اور بندگان خدا کے لیے اپنے تن، من، دھن کی قربانی پیش کرنے کو ہمہ وقت تیار رہیں۔ اگر ہمیں اللہ نے دولت سے نوازا ہے تو ہم خدا کی رضا و خوشنودی کے لیے اپنی دولت کا کچھ حصہ بندگان خدا کے لیے قربان کریں۔ اگر ہمیں علم کی دولت عطا کی گئی ہے تو ہم اپنے علم سے دوسروں کو فیضیاب کریں۔ اگر قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیں اپنے عہدے و منصب سے دست بردار ہونے کی نوبت پیش آئے تو ہم اپنے مفاد پر قوم و ملت کے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے عہدے و منصب سے دست بردار ہو جائیں۔ یہی قربانی کی اصل روح اور پیغام ہے۔
اللہ ہمیں قربانی کی اصل روح اور پیغام کو سمجھنے اور انہیں اپنی زندگی میں اتارنے کی توفیق عطا فرمائے۔