تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا یہ گوشت صرف گوشت کا لوتھڑا ہی نہیں جس کو کھانے کے لئے کباب، کوفتے، کڑاہی گوشت، سری پائے، بریانی یا پلاؤ یا دیگر کئی اقسام کی صورت میں کھایا جائے گا، یہ کھانا بھی چاہیے اس میں برکت بھی ہے اور شفاء بھی ہے، ویسے بھی یہ وہ گوشت ہے جوہر قسم کے مضر صحت سے پاک ہے، اس خوشی کے موقع پر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس مقدس دن کے موقع پر دو اقسام کے لوگ ہیں اول وہ جو قربانی کا جانور سنت ابراہیمی ادا کرنے کی غرض سے ذبح کریں گئے ، یعنی قربانی دینے والے لوگ، دوئم اقسام میں وہ سفید پوش ، غریب ، یتیم مسافر فقیر جن کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ بھی سنت ِ ابراہیمی ادا کر سکیں، یعنی جو لوگ قربانی نہیں دے رہے۔
جیسا کہ اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ قربانی کے جانور زبح کرنے کے بعد تین حصوں میں گوشت تقسیم کرنا چاہیے ، ایک حصہ گوشت خدا کی راہ میں جو لوگ حاضر ہیں اُن میں تقسیم کردینا چاہیے دوسرا حصہ رشتے دار ہمسائے وغیرہ کے لئے جبکہ تیسرا حصہ قربانی کا جانور اللہ کی راہ میں دینے والوں کے گھر کے لئے ہیں ، ایسے جانور جن میں سات سات حصے دار ہوتے ہیں ، اور ایسے آدمی جو اپنی الگ الگ قربانی ادا کرنا چاہتے ہیں گزارش ہیں کہ جب جانور کو ذبح کرنے کا وقت آئے تو سب کو حاضرہونا چاہیے کیونکہ ایک حدیث کا ترجمہ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بقر عید کی دس تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں۔ اور قربانی کرنے والہ اپنے جانور کے بالوں،سینگوں اور کھروں لو لیکر آئے گا(اور یہ چیزیں ثواب عظیم ملنے کا زریعہ بنے گئی)نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیکک شرف ِ مقبولیت حاصل کر لیتا ہے ۔لہزا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو،۔
Qurbani
جو لوگ قربانی ادا کرنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی قربانی نہیں کرتے ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ترجمہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روات ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ محسن اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو ( ایسا آدمی) ہماری عید گاہ میں حاضر نہ ہو ( الترغیب و الترہیب) اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلا کہ جو قربانی کی استطاعت رکھت ہوئے بھی قربانی ادا نہیں کرتے کتنی بدنصیبی ہے کتنے بڑے اجرو ثواب سے محروم رہ گئے،اب ایسے صاحب ایمان کو آنکھیں کھولنی چاہیے کہ قربانی کی فضیلت اور قربانی کی اہمیت کے ساتھ سنت ابراہیمی کو زندہ کرنے رکھنے کا بہت بڑا چواب ہے۔
قربانی واجب ہونے کے باوجود قربانی نہ کرنے پر نو رِ مجسم ، رحمت ِمجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہو جائیں اور عید گاہ میں حاضری سے روک دیں تو ایسے شخص کا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟عید گاہیں اور مساجد اللہ تعالیٰ کی محبوب جگہیں ہیں ، یہاں جمع ہونے والوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں برستیں ہیں ،یہاں سے روک دینا کیا بدنصیبی نہیں ؟۔
اس لئے قربانی کرتے وقت بخل سے کام نہیں لینا چاہیے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جن پر زکواة ادا کرنا واجب نہیں اُن پر قربانی دینا بھی واجب نہیں یہ بات غلط ہے ہاں یوں کہا جا سکتا ہے جس پر قربانی واجب ہے اُس پر زکواة دینا بھی فرض ہے، عمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر زکواة فرض نہیں اس لئے کے ان کے پاس سونا چاندی ،یا مال ِ تجارتیا نقدی نصاب کے بقدر نہیں ہوتی،لیکن بہت سا فاضل سامان پڑا ہوتا ہے (جیسے استعمال کیا ہوا ضرورت سے زائد فرنیچر وغیرہ)اگر یہ فاضل سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کیی قیمت کو پہنچ جائے تو قربانی واجب ہوجاتی ہے زکواة فرض نہیں ہوتی۔
Moon
ایک فرق اور بھی ہے کہ زکواة کا ادا کرنا اس پر فرض ہوتا ہے جب نصاب پر چاند کے اعتبار سے بارہ مہینے گزر جائیں اور قربانی کی تاریخ آنے سے پہلے چوبیس گھنٹے گزرنا بھی ضروری نہیں ، مثلاً اگر کسی کے پاس بقر عید کی نویں تاریخ کو عصر کے وقت ایسا مال آیا جس کے ہونے سے قربانی واجب ہوتی ہے اور دس تاریخ کو بھی اس کے پاس موجود رہا تو اس پر کل قربانی واجب ہو جائے گئی اور گھر کے ہر شخص کی ملکیت الگ الگ دیکھی جائے گئی، اور اگر کسی گھر میں باپ ، بیٹے اور بیٹوں کی ماں ، ہر ایک کی ملکیت میں اتنا مال ہو جس پر قربانی واجب ہے تو ہر ایک کی طرف سے قربانی دینا ھوگئی البتہ نابالغ کی طرف سے قربانی کرنا کسی حالت میں لازمی نہیں ، اکثر خواتین کے ملکیت میں اتنا زیور ہوتا ہے۔
جس پر قربانی واجب ہو جاتی ہے، جن خواتین کے پاس اتنا زیور ہو کہ اُس پر قربانی واجب ہو جائے تو ایسی خواتین کو قربانی کرنا چاہیے، آجکل جو فیشن بن گیا ہے پورا بکرا فریج میں رکھ کر پورا سال قربانی کا گوشت کھاتے رہتے ہیں ان سے گزارشش ہے گوشت اپنا جتنا عرصہ تک کھاتے رہیں گئے کسی کو کوئی گلہ شکوہ نہیں لیکن ! عرض ہے یہ گوشت جو ہم نے سنت ِ ابراہیمی کو ادا کر کے جمع کیا تھا اس کی حقیقت کو بھی مدِنظر رکھنا ہوگا، قربانی نہ تو کوئی رسم ہے۔
اور نہ ہی کوئی فیشن ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ سے عشق کی اعلیٰ مثال ہے کہ ایک باپ جو بڑھاپے کی حالت میں اپنا سہارا چاہتا ہے ، اللہ تعالیٰ ایک فرزند ِعظیم عطا کرتا ہے،جب وہ دھوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچ کر اپنے باپ کی آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے، پھر حکم ہو اللہ کی طرف سے وہ بھی خواب کی حالت میں تصور کیجئے ہمارے بیٹے کو بھائی یا بہین کا بیٹا کھیل کود کے دوران اگر کوئی ضرب لگا بیٹھے تو ہم بھائی بہین سے ناراض ہو جاتے ہیںکہ اس نے ہمارے بچے کو مارا پیٹا ہے، کئی گھرانوں میں ایسی معمولی باتوں سے لڑائی جھگڑے بڑھکر قتل و غارت تک پہنچ جاتے ہیں۔
Hazrat Ibrahim
یہی اللہ کے نبی وہ بھی خلیل اللہ حضرت براہیم علیہ اسلام ہی تھے کہ خواب کی تکمیل عملی جامعہ پہنانے کے لئے سب سے پہلے اپنے جگر کے ٹکڑے ، آنکھوں کے تارے ، بڑھاپے کے سہارے والے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام کواپنے دل کی تمنا ،اپنے رب کا حکم بتایا اور کہا اے بیٹے بتا تیری رضا کیا ہے، قربان جاؤں پیارے حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام پر آئیں اللہ کے پاک کلام ِ مقدس ، قرآن ِ مجید کیا فرما رہا ہے ترجمہ پھر جب وہ ( حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام )ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکتے (کی عمر) کو پہنچ گئے تو حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے ارشاد فرمایا اے میرے بیٹے ! میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔
سو غور کرو تمھاری رائے کیا ہے؟(حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام نے )کہا ابا جان ! وہ کام فوراً کر ڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اگر اللہ نے چاہاتو آپ مجھے صبر پانے والوں میں سے پائیں گئے آخری گزارش قربانی کے گوشت کو گوشت سمجھ کر مت کھائے بلکہ اس کو اللہ پاک کی امانت سمجھ کر زیادہ سے زیادہ تقسیم کریں ۔ بے شک اللہ پاک نے قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے کا حکم دیا ہے ، ایک ھصہ تقسیم کرنے کا ایک حصہ رشتے داروں کے لئے جبکہ تیسرا حصہ گھر والوں کے لئے ہیں۔
ایسے لوگ جو قربانی کی سعادت اللہ کے کرم و فضل سے حاصل کر رہے ہیں گزارش ہے گوشت کو زیادہ عرصہ استعمال کرنے سے کوئی مزائقہ نہیں لیکن اگر ہم اپنے حصے کا گوشت بھی تقسیم کردیں گئے تو مجھے امُید ہے اللہ کو اور اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام کو بہت پسند آئے گئی، اور پھر رسالت ِ آب ۖ بھی زیادہ خوژش ہونگے، دعا ہے اللہ پاک امت ِ محمدیہ کی قربانیوں کو قبول و منظور فرما ئے اور وہ مسلمان بہین بھائی جن کو اس عظیم سعادت حاصل کرنے کی توفیق نہیں ہوئی آئیندہ برس اُن کو بھی قربانی دینے کی توفیق دے آمین۔