تحریر : عبدالجبار خان دریشک عید کے روز قربانی سے فارغ ہو کر دوست احباب اور رشتہ داروں کو گوشت کا حصہ ان کے گھروں کو پہچانے کے بعد بکرے کے سری پائے کھانے کا ارادہ تھا خیال آیا کہ بازار سے ان کو بنوا آتا ہوں اس غرض سے بازار میں ایک دوکان پر گیا تو وہاں پر تین چار لوگ اپنے کام میں مکمل مصروف تھے ایک لڑکا آگ میں بکروں اور گائے بیل کے سرے اور پائے جلا رہا تھا بال جلنے کی بدبو نے ہر طرف قہر مچا رکھا تھا بس پائے کھانے تھے اس لئے یہ بو جونا قابل برداشت ہوتے ہوئے بھی برداشت کرنی پڑ رہی تھی وہاں ایک ادھیڑ عمر کا آدمی ایک تیز دھار ٹوکے سے بکروں اور بیل گائے کے آگ میں جلے سروں کو کاٹ رہا تھا اس کی جسمانی طاقت اور تیز دھار ٹوکے کے ایک ہی وار سے سرے دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتے وہ پھر اپنے ہاتھ کی مدد سے اس سرے سے مغز یعنی بھیجا نکال کر ایک طرف رکھا دیتا بکروں اور گائے بیل سب کے دماغ یعنی مغز دیکھنے میں ایک جیسے ہی لگ رہے تھے بس سرا جس کو عام زبان میں کو سر کہتے ہیں کسی جانور کا بڑا تھا تو کسی کا چھوٹا ان کے مغز کی بناوٹ دیکھنے میں ہوبہو انسانی دماغ کے جیسی ہی لگ رہی تھی جیسا ہم مختلف میڈیکل کی ویڈیوز یا تصاویر میں دیکھتے ہیں۔
شاید سب بڑے چھوٹے سر والے جانداروں کے دماغ کی ساخت ایک جیسی ہوتی ہو گی لیکن ان سب میں فرق صرف سافٹ وئیر کا ہوتا ہے یہ سافٹ وئیر انسانوں کا الگ اور جانوروں کے لئے الگ ہوتا ہے یہ قدرت کا نظام ہے یہ سافٹ وئیر ساری زندگی اس جسم کے تمام افعال کی انجام دہی میں مدد دیتا ہے اس جسم نے زندگی کیسے گزارنی ہے کیا کھانا ہے کیا کرنا ہے کیا اچھا ہے کیا برا ہے اور ایسے یہ نظام ساری زندگی چلتا رہتا ہے جب اس سافٹ وئیرکی معیادختم ہو تی ہے تو اس کا جسم کسی کا م کا نہیں رہتا ہے ایک وقت ہوتا ہے یہ جسم محلوں میں بیٹھ کر حکمرانی کرتا یا پھروہی جسم ہوتا ہے وہ مٹی دبا کر مٹی ہو جاتا ہے اگر کبھی اس سافٹ وئیر میں خرابی پیدا ہوجائے ہے تو اس سافٹ وئیر کا جسم اپنی عادات تبدیل کر لیتا ہے اگر جانور کا سافٹ وئیر خراب ہو جائے تو وہ جانور سے درندہ تو بن جاتا ہے لیکن وہ انسان نہیں بنتا پر جب انسان کا سافٹ وئیر خراب ہو جائے تو وہ انسان سے جانور اور جانور سے درندہ بن جاتا ہے خیر یہ تو میں سر کے ٹکر ہوتے دیکھ کے سوچ رہا تھا میں کاونٹر پر کھڑے لڑکے کے پاس گیا اس پوچھا کتنی دیر تک تیار ہو جائیں گے اس نے کہا جناب دوگھنٹے لگیں گے آپ ٹوکن لے جائیں اور اپنا نمبر نوٹ کروا دیں۔
ہم آپ کو دوگھنٹے تک کال کردیں گے میں وہاں سے ٹوکن لے کر چلا گیا دوگھنٹے گزر گئے لیکن اس کی کوئی کال نہ آئی میں دوبارہ اس کے ہوٹل پر گیا اس لڑکے سے پوچھا تیار ہوگئے ہیں وہ تیار شدہ سروں والے شاپروں میں دھونڈنے کے بعد کہتا ہے نہیں جناب آپ کے سری پائے تیار نہیں ہوئے رش بہت تھا لیکن مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا وہ بھول گیا تھا خیر اس نے کہا آپ پندرہ بیس منٹ یہاںدوکان میں بیٹھ کر انتظار کر لیں بس تیار کردیتے ہیں میں دومنٹ بامشکل دوکان میں بیٹھ سکا بال جلنے کی وجہ سے سانس لینے میں الجھن ہو رہی تھی ان بنانے والوں کی ہمت ہے یا اس کے اردگرد والے رہنے والے لوگوں کی اس تکلیف دینے والے گناہ میںمیں بھی برابر کا شریک جرم تھاجو ہماری سری پائے کھانے کی خواہش میں ان کو مل رہی تھی میں اس بدبو اور تکلیف کی وجہ سے وہاں سے اٹھ کر باہر بازار میں دوکان کے سامنے ایک پٹھے پر جا بیٹھا عید کے پہلے روز تقریباً سارا بازار ہی بند پڑا تھا سوائے چند ایک دوکانوں کے آنے جانے والے بھی بہت کم تھے اسی انتظار کے دوران وہاں ایک مانگنے والا آ گیا جو پولیو کی بیماری کی وجہ سے اپنی ٹانگوں سے محروم تھا وہ بیٹھنے کے انداز میں ہاتھ کی مدد سے اپنے دھڑ کو کھنچ کر آگے بڑھ رہا تھا۔
عید پر وہ بھی تیار ہو کر گھر سے نکلا تھا اس نے صاف ستھر کپڑے اور سر پر سندھی ٹوپی پہن رکھی تھی وہ میرے پاس آیا میں نے اس کو کچھ دینے کے بعد اس سے باتیں کرنی شروع کردی اس نے اپنا نام جمعہ بتایا جوقریب جھگیوں والی بستی کا رہائشی تھا جمعہ کی عمر 25 سے 30 سال کے درمیان ہوگی وہ ایسے ہی مانگ کر اپنی زندگی کا گزارہ کررہا تھا میں نے اس پوچھا عید کیسی گزر رہی ہے اس نے کہا اللہ کا شکر ہے بس گزر ہی رہی ہے میں نے کہا صبح عید پر میٹھا کھایا تھا اس نے کہا ہاں سویاں کھائی تھیں میرا دوسرا سوال تھا کیا گوشت بھی کھایا ہے اس نے کہا نہیں میں نیمزید پوچھا کیا دوپہر کو روٹی بھی نہیں کھائی اس نے کہا کھائی ہے میں کہا کیا اس دن بھی گوشت نہیں کھایا اس نے کہا گوشت کے شوربے کے ساتھ روٹی کھائی ہے اس میں بوٹی نہیں تھی میں کہا کیا وجہ بوٹی کیوں نہیں کھائی اس نے کہا میرا بھائی کہیں سے مٹھی بھر گوشت لایا تھا جب وہ گھر میں پکا تو بوٹیاں تو بچوں کو ہی پوری نہیں ہوئیں ہم بڑوں نے شوربے سے ہی کام چلایا ہے۔
جمعہ ملنگ کی یہ بات دل کو لگنے والی تھی ہم قربانی کرنے کے بعد اپنے پیٹ اور فریزر خوب بھرتے ہیں اور پورے کا پورا بکرا کھانے کے لئے مکمل پلان تیار کرتے ہیں کہ اس کے گوشت سے کیا کیا پکوان تیار کروانے ہیں ہماری یہ مشکل بھی میڈیا نے آسان بنا دی ہے آپعیدسے پہلے کی ٹرانسمیشن دیکھیںتو وہ بتاتے ہیں قربانی جانورکا کہا سے ملے گا کتنے تک کا ملے گا اس کا گوشت کتنا نکلے گا چھری تیز کدھر ہوتی ہے قصائی کا ریٹ کیا چل رہا ہے منڈی میں کمانڈو شیرو سطان پہلوان دبنگ خان دیکھایا جاتا ہے اس کے بعد عید کے پہلے دوسرے اور تیسرے دن اس شیرو سطان کمانڈو اور دبنگ کو کیسے پکوان تبدیل کر کے کھانا ہے اور خاص کر رات کے وقت کی ٹرانسمیشن میں کس شہر کے لوگ کیا پکا کر کھا رہے ہیں پورا بکرا کہا بروسٹ ہو رہا ہے ران اور سجی کہاں تیار ہورہی ہے کونسا سیاست دان کھلاڑی اور ادکار آج کے دن کونسی ڈیش کھا رہا ہے اور عید کے دن ان کی کیا مصرفیات تھیں نیوز چینلز کی ساری کی ساری ٹرانسمیشن ہوتی ہی اس پر ہے شاید جب 90 کی دہائی میں جب چینلز نہیں تھے تو لوگ جانور لینے کے لئے ادھر ادھ بھٹکتے رہتے تھے۔
لوگ قصابوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے؟ اور اکثر لوگ گوشت تو اوبال کر یا کچا ہی کھاتے تھے؟ جناب ان کے بغیر بھی یہ کام ہو رہے تھے اس ٹرانسمیشن میں ان سب چیزوں کو دیکھ کر سب دیکھنے والوں کا دل بھی ان پکوانوں کی طرف مائل ہوتا ہے اور ان کودیکھنے والے قربانی کے مقصد کو بھول کر پیٹ کے مقصد میں لگ جاتے ہیں معذرت کے ساتھ ہمارا میڈیا یہ نہیں دیکھاتا کہ جمعہ ملنگ جیسے کتنے اور لوگ ہوں گے جو قربانی کے دن بھی گوشت سے محروم رہے جاتے ہیں اگر کسیکو گوشت دیا بھی جاتا ہے تو صرف چار بوٹیوں پر مشتمل مٹھی بھرجس میں سے کسی ٹانگوں والے نارمل انسان کے حصے میں بوٹیاں تو کسی جمعہ ملنگ جیسے معذور کے حصے میں شوربا مجھے وہ منظر یاد آنے لگا جس میں وہ آدمی تیز دھار ٹوکے سے بڑے سر(سری) پر وار کررہا تھا وہ اس سر سے مغز مطلب دماغ کو نکال رہا تھا کہ دماغ سب ایک جیسے ہوتے ہیں پر ان میں سافٹ وئیر کا فرق ہوتا ہے انسانوں میں یہ سافٹ وئیر اعلی قسم کا ہے جس کی وجہ سے انسان اشرف المخوق ہیں۔
انسانوںکایہ سافٹ وئیر آٹو اپ ڈیٹ ہوتا ہے اس میں انسان کی مرضی وہ اپ ڈیٹ میں اچھائی اور نیکی کی فائلیں ڈوان لوڈ کرے یا برائی کی ہم میڈیا پر ان سب چیزوں کودیکھ کر اگنور بھی تو کر سکتے ہیں شاید کتنے لوگ اگنور کرتے ہوں گے کچھ جذبہ انسانی کے تحت تو کچھ مجبوری کے تحت میڈیا چینلز کی پالیسی بنانے والے اپنے دماغ کے سافٹ وئیر میں کھانے پکانے اور خود قربانی کا گوشت کھانے کی ترغیب دینے کی بجائے گوشت سے محروم رہے جانے والے جمعہ ملنگ جیسے لوگوںدیکھیںتاکہ قربانی کا اصل مقصد رندہ رہے ابھی جمعہ ملنگ سے باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اس سری پائے بنانے والے کا بیٹا موٹر سائیکل پر جلدی جلدی آیا اور کہا کہ ابا جلدی دوکان بند کر پولیس آ رہی ہے اس کے باپ نے فوری طور پر دوکان میں سامان پھینکااور ساتھ ہی دوکان کا شٹل گرا کر جانے لگا تو میں آواز دی میرے سری پائے کا کیا بنا اس کہا جناب پولیس آ رہی ہے آپ کل پتہ کرنا اس جواب کے بعد میں وہاں سے رخصت ہوا اور جمعہ ملنگ بھی اپنی منزل کو۔