قربانی، قربانی، قربانی

 Eid-ul-Azha

Eid-ul-Azha

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے صرف قوم ہی قُربانی دیتی چلی آ رہی ہے، اشرافیہ کے تو ملک کے اندر اور باہر ”سَرے محلوں” کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اگر بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں سیاست اورکرپشن لازم وملزوم ہوچکی ہیںاور سیاست ایسی تجارت میںڈھل چکی ہے جس میں جتنی جی چاہے کرپشن کرو اور موج اُڑاؤ۔ قوم کو یقیناََ اُس وقت حیرت کا شدید جھٹکا لگا ہوگا جب ”مسٹر ٹین پرسنٹ ” کو نیب نے ”مسٹرکلین” کا سرٹیفیکیٹ تھما دیا اورکہا ”جاؤ ! عیش کرو”۔ وہ جو ہم غضب کرپشن کی عجب کہانیوںکا ”رَولا” ڈال ڈال کر تھک بلکہ ”ہپھ” گئے ،وہ سب جھوٹ ثابت ہوئیں۔ آج زرداری صاحب سینہ تان کر کہہ رہے ہیں کہ صرف وہی ”صادق وامین” ہیں ،کوئی دوسرا نہیں کیونکہ اُنہوں نے کرپشن کے 12 مقدمات میں کئی سال جیل کاٹی اور لگ بھگ500پیشیاں بھی بھگتیں لیکن نکلا ”کَکھ” بھی نہیں۔

نیب سے کلیئرنس کے بعد زرداری صاحب نے یہ لطیفہ سنا کر لوگوں کو محظوظ کیا کہ پیپلزپارٹی نے کبھی کرپشن نہیں کی ۔اِس کے باوجود بھی اُن کا وزیرِاعظم 21 ریفرنسز کا سامنا کر رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا”میں نے اپنے مقدمات جیل میں بیٹھ کر لڑے۔ میں عدلیہ سے لڑتا نہیں، اُس کے تھکنے تک ساتھ بھاگتا ہوں”۔ بالکل بجا ارشاد ،جب تک نیب جیسے ادارے موجود ہیں ،ایسا ہی ہوتا رہے گاکیونکہ احتساب بیورو تو پلی بارگین کے ذریعے سہولت کاری کا کام سرانجام دیتا ہے۔ حیرت ہے کہ ایک طرف تو سپریم کورٹ کی طرف سے باربارکہا جا رہا ہے ” نیب نے ادارے تباہ کر دیئے۔ اُس نے اپنے ہاتھوں اپنی ساکھ ختم کردی، اُس کے بعض فیصلے کہیں اور سے ہوتے ہیں”۔ جبکہ اُسی نیب کو شریف فیملی کے خلاف ریفرنس تیار کرنے کا حکم بھی دیا جاتا ہے اور چونکہ سپریم کورٹ کو نیب کی ”کارستانیوں” کا عِلم بھی ہے اِس لیے اُس پر ایک نگران جج بھی بٹھا دیا جاتا ہے۔ گویا

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

یہ تاریخی حقیقت کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ زرداری نے پہلے سرے محل کی ملکیت سے انکار کیا اور پھر اُسی کی ملکیت کا دعویٰ بھی کردیا۔ سوئس بینکوں میں پڑے لاکھوں ڈالرز کی خاطر اپنے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کی قُربانی دی۔ سپریم کورٹ نے سوئس حکومت کو خط لکھنے کے لیے کہا تو گیلانی صاحب نے آصف زرداری کے حکم پر خط لکھنے سے صاف انکار کردیا جس پر ہمارے ”گدی نشیں”کو سپریم کورٹ نے گھر کا راستہ دکھادیا۔ لیکن جب زرداری نے یہ ڈالر ”نُکرے” لگا لیے تو پیپلزپارٹی کے اگلے وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف المعروف ”راجہ رینٹل” نے خط لکھ بھی دیا۔ تسلیم کہ زرداری صاحب پر قائم کیے گئے کیسز میں سے دو ،چار غلط اور سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ہوںگے لیکن دو،چار سو کرپشن کے معاملات ایسے بھی ہوںگے جنہیں زرداری ”اندرکھاتے” ہی ڈکار گئے ہوںگے اور کسی کو کانوںکان خبر تک نہ ہونے دی ہوگی وگرنہ بمبینوسینما میں ٹکٹیں بلیک کرنے والا ارب پتی کیسے بن گیا۔سچ تو یہی ہے کہ پاکستان میں کرپشن کو ”فَن” کا درجہ حاصل ہو چکاہے اور اب یہاںفنکار ہی فنکار نظر آتے ہیں ،دھرتی ماں کا وفادار کوئی نہیں۔ اطلس وکمخواب میں لپٹے اِن لوگوں کے جسم سے مفلسوں کے خون کی بُو آتی ہے اور اِس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔

کرپشن کا یہ زہر قوم کی نَس نَس میں سما چکا ہے ۔جس کسی کا بھی داؤ چلتا ہے ،وہ کرپشن کی اِس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اپنا فرضِ عین سمجھتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اقوامِ عالم اپنے مذہبی تہواروں پر اشیائے خورونوش کی قیمتیں قابلِ ذکر حد تک کم کر دیتی ہیں۔ میری امریکہ میں مقیم بیٹی بتاتی رہتی ہے کہ امریکہ میں کرسمس اورایسٹر کے مواقع پر اشیائے خورونوش کی قیمتیں حیرت انگیز حد تک کم ہو جاتی ہیں تاکہ ہر کوئی اِن تہواروں کی خوشیوں میں شریک ہو سکے۔ لیکن ہمارے ہاں معاملہ بالکل اُلٹ ہے ۔ہمارے ”مگرمچھ” اِس تاڑ میں رہتے ہیں کہ کب اُنہیں موقع ملے اور وہ مجبوروں ،مقہوروں کو ہڑپ کریں۔ یہ مواقع اُنہیں مذہبی تہواروں پر خوب میسر آتے ہیں۔جونہی رمضان المبارک کا چاند نظرآتا ہے ،کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ یہی حال عیدین پر بھی ہوتا ہے۔

عیدِ قُربان کی آمد آمد ہے اِس لیے وہ ٹماٹر جو صرف ایک ہفتہ پہلے تک تیس ،چالیس روپے کلو میں ”رُلتے” پھرتے تھے ،آج 140 روپے کلو ہو چکے ہیں۔ ہم نے ایک سبزی فروش سے جب استفسار کیا تو اُس نے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجا کر کہا ”بی بی ! جتنے ٹماٹر چاہییں ،آج ہی لے جاؤ ،کل اِن کی قیمت 250 روپے کلو ہو جائے گی”۔ہم نے کہا ”ہم تو حسبِ ضرورت لے ہی جائیںگے لیکن تم لوگ غریبوں کا کچھ تو خیال کرو”۔ اُس نے کہا”اِس میں ہمارا کیا قصور،ہمیں تو منڈی سے جس بھاؤ ملے گی، اُسی میں بیچیں گے”۔ یہی حال باقی سبزیوں کا بھی ہے۔ کسی شے کو ہاتھ لگاؤ تو گویا ہاتھ جَل جائے۔ لہسن ،ادرک کی قیمت سُن کر ہمارے چودہ طبق روشن ہوگئے اور ہم نے سوچا کہ چلو اِس عید پر بِنا لہسن ادرک کے ہی کوئی ”ریسیپی” تیار کر کے دیکھتے ہیں۔

ہمارے گھر کے قریب ہی مویشی منڈی تھی جس میں قُربانی کے لیے ہزاروں جانوروں کا میلہ لگا ہوا تھا ۔یوں تو ہم کبھی منڈی نہیں گئے لیکن اِس بار جی میں آئی کہ چلو ! منڈی کی سیر کرکے دیکھتے ہیں ۔ڈرائیور کو ساتھ لیا اور منڈی پہنچ گئے ۔نیوزچینلز پر ہم ہر روز یہ خبریں سنتے رہتے تھے کہ قُربانی کے جانوروں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں ۔ہم نے یہ بھی سُن رکھا تھا کہ بکروں کو جوان ظاہر کرنے کے لیے اُنہیں ”جعلی دانت ” لگائے جا رہے ہیں۔ایسی خبروں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم نے ڈرتے ڈرتے ایک ”مریل” سے بکرے کا بھاؤ پوچھ لیا۔ بیوپاری کے چہرے کی خشونت دیکھ کر ہماری ہمت ہی نہیں پڑی کہ اُس سے یہ پوچھ سکیں کہ بکرے کے دانت اصلی ہیں یا نقلی۔اُس نے کہا ”پینتیس ہزار”۔ ہم نے غصّے سے کہا ” دَس کلو گوشت نہیں ہوگا اور تم اتنی قیمت بتا رہے ہو ”۔بیوپاری نے کہا ”آپ نے قُربانی کرنی ہے یا گوشت بیچنا ہے جو وزن کی بات کررہی ہیں”۔ ہم نے بات کو آگے بڑھانے کی بجائے وہاں سے کھسک لینے میں ہی عافیت جانی۔

ہمارا خادمِ اعلیٰ سے سوال ہے کہ یوں تو وہ دِن رات اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ میں مصروف رہتے ہیںلیکن یہ سب کچھ جو آپ کی ناک کے عین نیچے ہو رہا ہے ،کیا یہ نظر نہیں آتا؟۔ زبانی کلامی دعووں سے کوئی ”خادم” نہیں بن جاتا بلکہ ”ہر کہ خدمت کرد ،او مخدوم شُد”۔آپ کو بھی اگر ”خادمِ پنجاب ”کہلوانے کا شوق ہے تو پھر اُس کا عملی ثبوت بھی دیں۔ یہ بجا کہ آپ ترقیاتی کاموں میں جُتے ہوئے ہیں لیکن قوم کی سب سے پہلی ضرورت ”روٹی” ہے ،جس کی طرف آپ کا مطلق دھیان نہیں۔

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر