قربانی صبر شکر اور فرمانبرداری

Qurbani

Qurbani

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا

قربانی ” صرف بے عیب جانور اللہ کی راہ میں زبح کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ تقوی اور قربانی کا فلسفہ سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ اگر غور کیا جائے جب ہم کسی جانور کو اللہ کی رضا کے لئے قربان کرتے ہیں۔ خون مٹی میں گوشت ہم کھا لیتے ہیں ہڈیاں ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ عقیدت مند دفنادیتے ہیں یعنی مٹی میں دبواتے ہیں اور کچھ جگہوں پر جانوروں کی نظر ہو جاتیں ہیں ۔ برحال کہنے کا مقصد اللہ کو ہماری قربانی کا کیا جاتا ہے۔ ؟ تقویٰ اور نیت !

اس قربانی سے جو عظیم سبق ملتا ہے کاش وہ یاد کرلیں اور پھر عمل کر کے دنیا اور آخرت کی کامیابی سمیٹ لیں ! یہ عظیم قربانی پر کچھ کہنے سے قبل ایک مشہور واقعہ جو اسلامی کتب میں درج ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیاکہ تونے کبھی اپنی پوری قوت بھی صرف کی ہے۔جبرائیل امین نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں نے چارمرتبہ اپنی پوری قوت صرف کی ہے۔

پہلی بارجب حضرت ابراہیم علیہ السلام کومنجیق میں رکھ کرآگ میں ڈالاجارہاتھاآگ کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے تھے پھراللہ تعالیٰ کے خلیل علیہ السلام آگ کی طرف جا رہے تھے میں مقام سدرہ پرتھااللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہواکہ اے جبرائیل علیہ السلام جلدی جامیراخلیل علیہ السلام آگ میں جارہاہے آگ کوپرمارکرگلزاربنادے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں نے سدرة المنتہیٰ سے پروازکی اورخلیل علیہ السلام کے آگ میں پہنچنے سے پہلے میں آگ میں پہنچ گیااورآگ کواللہ تعالیٰ کے حکم سے گلزاربنادیادوسری بارمیں سدرة المنتہٰی پرتھاچھری حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے کی طرف آرہی تھی اس نے صرف دوفٹ کافاصلہ طے کرناتھااسکے دوفٹ کے فاصلے کوطے کرنے سے پہلے میں جنت سے مینڈھالے کرپہنچ گیا۔تیسری بارحضرت یوسف علیہ السلام کوکنویں میں ڈالاجارہاتھاوالدکاپہنایاہوالباس اتاردیاگیاتھابازومیں رسی باندھ کرکنویں میں لٹکادیاگیاآہستہ آہستہ پانی کی سطح قریب آ رہی تھی۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے ایک بھائی نے تلوارمارکررسی کاٹ دی نصف راستہ طے ہوچکاتھااورنصف باقی تھارسی کاٹ دی گئی اورمیں سدرہ پرتھاحکم ہواجبرائیل!جلدی جنت جااوریوسف علیہ السلام کے پانی میں پہنچنے سے پہلے پہلے جنتی تخت لے جااورپانی پربچھادے میں نے اپنی ساری قوت صرف کردی سدرة المنتہیٰ سے جنت گیااوروہاں سے تخت اٹھاکرزمین کی طرف آیاابھی حضرت یوسف علیہ السلام پانی پرنہیں پہنچے تھے کہ میں پہلے پہنچ گیا۔چوتھی مرتبہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم غزوہ اُحدمیں جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کادانت مبارک شہیدہواخون پاک کاقطرہ زمین کی طرف جارہاتھااللہ رب العزت کی طرف سے حکم ملااے جبرائیل! اگرمیرے محبوب پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خون کاقطرہ زمین پرگرگیاتوزمین جل کرراکھ ہوجائے گی جااورخون کاقطرہ میرے پاس اٹھاکرلے آ جبرائیل نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپکے مقدس خون کاقطرہ زمین پرگرنے سے پہلے میں پہنچ گیا۔قربانی حضرت خلیل اللہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی وہ عظیم قربانی ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذی الحجہ کی پہلی شب کوخواب دیکھاجس سے آپ کوندادی جارہی ہے کہ اے ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کی بارگاہ میں قربانی کروجب صبح ہوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام بیدارہوئے اوربہت سی بکریاں خداکی راہ میں قربان کیں پھردوسری رات کوبھی یہی خواب دیکھاجس میں آپ علیہ السلام کوحکم مل رہاہے اے خلیل علیہ السلام قربانی کروصبح ہوئی توحضرت ابراہیم علیہ السلام نے بہت سی گائیں اوربکریاں اللہ کی راہ میں قربان کیں جب تیسری رات ہوئی توآپ علیہ السلام نے وہی خواب دیکھاصبح بیدارہوکربہت سے اونٹ خداکی راہ میں قربان کیے آٹھویں ذی الحج تک یہی خواب کاسلسلہ جاری رہاکہ رات کوخواب میں حکم ہوتاکہ قربانی کروہر صبح بیدار ہوکرراہ خدامیں جانورقربان کردیتے جب آٹھویں شب میں خواب دیکھااورقربانی کاحکم ہواتوآپ علیہ السّلام نے عرض کی اے میرے پروردگارکیاشے قربان کروں حکم ملاکہ اپنے لخت جگرپیارے فرزندارجمندحضرت اسماعیل علیہ السّلام کی قربانی کرو!

نویں ذی الحج کو خواب دیکھاکہ آپ علیہ السلام اپنے ہاتھ سے اپنے فرزندکوذبح کررہے ہیں صبح بیدارہوئے اوریقین کرلیاکہ یہ حکم خداوندی ہے جس کی تعمیل ضروری ہے دسویں ذی الحج کی رات کوپھریہی خواب دیکھادسویں ذی الحجہ کی صبح کوآپ علیہ السلام سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام کے پاس تشریف لے گئے اورسیدہ ہاجرہ علیہاالسلام کوحکم دیاکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کونہلادھلاکرتیارکروسیدہ ہاجرہ علیہاالسلام نے اپنے بیٹے کونہلادھلاکرخوشبولگائی اورتیارکرکے اپنے والدحضرت ابراہیم علیہاالسلام کے حوالے کردیاحضرت ابراہیم علیہاالسلام نے انکاہاتھ پکڑاباپ بیٹاچھری اوررسی لے کرجبل عرفا ت کی طرف چل پڑے کعبہ شریف سے کچھ دورپہنچے توشیطان لعین نے آپ علیہ السلام کواس عظیم قربانی سے روکناچاہاسب سے پہلے شیطان لعین حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام کے پاس آیااورکہنے لگااے ہاجرہ!(علیہاالسلام ) آپکومعلوم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت اسماعیل علیہ السلام کوذبح کرنے کے لئے لے گئے ہیں سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام نے کہایہ کیسے ہوسکتاہے کہ باپ اپنے بیٹے کوذبح کرے؟شیطان بولاحضرت ابراہیم علیہ السلام کواللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملاہے کہ اپنے بیٹے کی قربانی کر۔سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام نے کہااے شخص اگرخداکاحکم اسی طرح ہیتومیں اورمیرابیٹاخداکے حکم پرراضی ہیں۔شیطان جب مایوس ہوکرواپس ہواتوحضرت اسماعیل علیہ السلام کے دل میں وسوسہ ڈالنے لگاقریب جاکرکہاتجھے تیرے والدذبح کرنے کے لئے لے جارہے ہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایاکیوں؟شیطان نے کہاوہ سمجھتے ہیں کہ ا للہ تعالیٰ نے انہیں ایساکرنے کا حکم دیاہے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیااگراللہ تعالیٰ میری جان کی قربانی قبول فرمالے تومیرے لئے اس سے بڑھ کرکیاسعادت ہوگی۔شاعرنے کیا خوب کہا۔

جان دی ہوئی اسی کی تھی حق تویہ ہے کہ حق ادانہ ہوا

شیطان نے ہرممکن کوشش کی کہ حضرت ابراہیم کسی نہ کسی طرح اس عظیم قربانی سے رک جائیں۔مگراللہ تعالیٰ کے خلیل کے عزم سے بے بس ہوگیا۔اسکے بعدشیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں وسوسہ ڈالناشروع کیاحضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ پاک کے خلیل تھے فوراََ پہچان گئے کہ یہ کارنامہ شیطان کاہے جواس عظیم قربانی سے روکنے کامشن پوراکررہاہے آپ علیہ السلام نے اسکودھتکارنے کے لئے پتھراٹھاکراسے مارناشروع کیااورفرمایااے شیطان لعین دورہوجامیری نظروں کے سامنے اللہ تعالی کویہ ادائے ابراہیمی اتنی پسندآئی کہ قیامت تک حج کرنے والے حاجیوں کے لئے حکم فرمادیاکہ میرے پیارے خلیل علیہ السلام کی سنت کوزندہ رکھنے کے لئے یہاں پرشیطان کوسات کنکرماریں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام ایک پہاڑکے قریب پہنچے توحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا۔جوبات آپ علیہ السلام نے کہی اسکی گواہی اللہ پاک کی کتاب قرآن مجیدکاپارہ ٢٣دیتاہے۔ترجمہ:”اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھاکہ تم کواپنے ہاتھ سے ذبح کررہاہوں اب بتاتیری کیارائے ہے۔حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیااے اباجان!آپکوجوحکم ملاہے وہ پوراکیجیے مجھے آپ ان شاء اللہ صبرکرنے والا پائیں گے۔!

آؤ آج اس عید قربان پر عہد کریں کہ ہم والدین کی خواہش پر اپنی پسند اور اپنی ناپسند کو قربان کر کے ” صبر کرنے والوں ” کے ساتھ حضرت اسماعیل کی سنت صبر اور فرمانبرداری اپنائیں گئے۔ انشااللہ

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا