”ہر امّت کے لئے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تا کہ( اُس امّت )کے لوگ اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے اِنکو بخشے ہیں” ( ا لحج ٣٤)اللہ نے جانوروں کو انسانوں کے لئے مسخر کر دیا یعنی بے زبان کر دیا۔اللہ کو ان کی قربانی کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون پہنچتا، بلکہ اللہ کو صرف انسان کا تقویٰ پہنچتا ہے۔
سب سے بڑی قربانی دینے والے حضرت ا برہیم دنیا کے امام ابرہیم پر اللہ کی طرف سے عالمگیر دعوت کی ذمہ داری تھی۔ عر ا ق میں اُر کے مقام سے قاہرہ ، شام، مکہ،فلسطین جبُرون عرب کے ملکوں تک سفر کیا ۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل مکہ میں، حضرت اسخاق فلسطین میں اور حضرت ابراہیم کے بھتیجے حضرت لوط سدوم میں حضرت ابراہیم کی ہدایت کے مطابق اللہ کے دین کے لیے کام کرتے رہے ۔ اللہ کی آزمائشوںمیں ابراہیم پور ے اُُترے ۔نمرود سے مباحثہ کیا۔ اللہ نے ابرہیم کودنیا کا امام بنایا۔
ابرہیم کی دعا ابرہیم نے اللہ سے دعُا مانگی اے پروردگار مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو۔اُ س د ُعا کے بدلے میں اللہ نے اُس کو ا یک حلیم برُدبار لڑکے کی بشارت دی۔ اور حضرت اسماعیل پیدا ہوئے۔ ” وہ لڑکا جب اِس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچا گیا تو ابرہیم نے اس سے کہا، بیٹا میں نے خواب دیکھتا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر ہا ہوں اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے۔ اس نے کہا ابّا جان جو کچھ آپ کو حکم دیاجارہا ہے کر ڈالیے آپ مجھے صابروں میں پائیںگے۔ آخر میں ان دونوںنے سر تسلیم خم کر دیا اور ابرہیم اپنے بیٹے کو ماتھے کے بَل گرِ ا دیا۔ اور ہم نے ندا دِی کہ اَے ابرہیم تُو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فد یے میں دے کر اِس بچے کو چھڑا لیا۔ اوراُسکی تعریف اور توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میںچھوڑڈی”( ا لصفٰت آیت١٠١ تا١٠٨)۔ سلام ہے ابراہیم پر۔ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں یقینا وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا اور ہم نے اُسے اسخاق کی بشارت دی ۔ایک بنی صالحین میں سے ۔ اسے اور اسخاق کو برکت دی اَب اُن دونوں کی ذرےّت میں سے کوئی محسن ہے اور کوئی اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والا ۔
حضرت ابرہیم کا اپنے باپ اور شرک سے انکار ”اور اس کتاب میں ابراہیم کا قصّہ بیان کرو، بے شک ہو ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہاکہ اباّ جان آ پ کیوں اُن چیزون کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں؟ آباّ جان میرے پاس ایک ایساعلم آیا ہے جو آ پ کے پاس نہیں آیا۔آپ میرے پیچھے چلیں میں آپ کو سیدھا راستہ بتاوں گا۔ آبّا جان آپ شیطان کی بندگی نہ کریں، شیطان تو رحمان کا نافرمان ہے۔ آبا جان ،مجھے ڈر ہے کیں آپ رحمان کے عذاب میں مبتلانہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کے رہیں باپ نے کہا ابراہیم کیا تُو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے ؟ اگر باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا ۔بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے ا لگ ہو جا ۔ ابراہیم نے کہا سلام ہے آپ کو ۔میں اپنے ربّ سے دُعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے۔میرا ربّ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اوراُن ہستیوں کو بھی، جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو۔ میں تو اپنے ربّ کو پکاروں گا اُمید ہے میں اپنے ربّ کو پکار کرنامراد نہ رہوں گا۔پس جب وہ اُن لوگوں سے اور اُنکے معبودوںِ غیر اللہ سے ُجدا ہو گیا تو ہم نے اُس کو اسخاق اور یعقوب جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو بنی بنایا اور اِن کو اپنی رحمت سے نوازا اور اِن کو سچی نام وَری عطا کی” ۔( مریم٤١ تا ٥٠) ابراہیم بتوں سے نالاں تھے۔ اسلام کے بارے میں اپنے باپ سے نالاں تھے۔قوم سے بتوں کے معاملے میں مناظرہ کیا۔ نمرود بادشاہ وقت سے مناظرہ کیا۔
خانہ کعبہ کی بنیاد خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی اور قربانی کی۔آج تک لاکھوں مسلمان حج کے موقعہ پر قربانی کرتے ہیں سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہیں اور رہتی دنیا تک سنت ابراہیمی پر عمل ہوتا رہے گا ۔یہ ہے احسان ربّ کی طرف سے اپنے نیک بندوں پر۔حدیث میں آتا ہے ،براد بن عازب کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا سب سے پہلا کام جس سے ہم آج کے روز کی ابتدا کرتے وہ یہ ہے کہ ہم نماز پڑتے ہیں پھر جا کر قربانی کرتے ہیں جس نے اِس پر عمل کیا اُس نے ہمارے طریقے کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کیا تو اُس کا شمار قربانی میں نہیں ہے بلکہ وہ ایک گوشت ہے جو اُس نے اپنے گھر والوں کے لیے مہیا کیا دوسری دوسری حدیث میں آتا ہے،حضرت انس بن مالک کہتے ہیں حضور ۖ دو مینڈوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈوں کی قربانی کرتا ہوں۔ یہ ہے قربانی جو اللہ کو قبول ہے جو اللہ اور اَس کے رسول ۖ کے حکم کے مطابق ہے