تحریر: پیر محمد عثمان افضل قادری سوال: قربانی کیا ہے؟ جواب: اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے اور ثواب کے حصول کی نیت سے دس، گیارہ اور بارہ ذوالحج کی تاریخوں میں مخصوص جانور (اونٹ، گائے، بھینس، بکرا، دنبہ، بھیڑ وغیرہ) ذبح کرنا، قربانی کرنا ہے۔
سوال: قربانی کرنے کا کیا ثواب ہے؟ جواب: ”سنن ابن ماجہ” کی کتاب الاضاحی، باب ثواب الاضحےة، حدیث نمبر 3118 میں ہے: ”حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا: تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! ان سے ہمیں کیا ملے گا؟ فرمایا: ہر بال کے عوض نیکی۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! اون؟ تو آپ نے فرمایا: اون کے ہر بال کے عوض بھی نیکی ملے گی۔
سوال: سنت ابراہیمی کے تحت قربانی کرنے کے فضائل کیا ہیں؟ جواب: سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمۖ نے فرمایا: ”جو شخص دل کی خوشی سے اور ثواب پانے کی نیت سے قربانی کرے تو قربانی اس شخص کے لیے آگ سے رکاوٹ بن جائے گی۔” ایک اور حدیث پاک میں ہے: ”قربانی کے جانوروں کو خوب پالو! کہ وہ پل صراط پر تمہارے لیے سواری ہوں گے۔” ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے: ”قیامت کے روز قربانی ایک خوبصورت جانور کی شکل میں قبر پر کھڑی ہوگی اور قربانی دینے والے کو اپنے اوپر سوار کرکے عرش معلی کے سایہ تلے پہنچائے گی۔”
Islam
سوال: دین اسلام میں قربانی کی اہمیت کیا ہے؟ جواب: امام اعظم نعمان بن ثابت المعروف امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قربانی واجب ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں ”وانحر” یعنی قربانی کیجئے! صیغہ امر کے ساتھ ہے۔ نیز ارشاد نبوی ہے: ”جسے گنجائش ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔” اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا، اور قربانی کرتے رہے۔
سوال: کیا کسی دوسرے کی طرف سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے؟ جواب: صحیح مسلم، سنن ابو دائود، اور مسند امام احمد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے ایک مینڈھا کی قربانی کی اور عرض کیا: ترجمہ: ”اے اللہ! میری طرف سے میری آل کی طرف سے اور میری امت کی طرف سے قبول فرما ۔” یہ حدیث پاک ”سنن ابو داؤد” کتاب الضحایا، باب ما یستحب من الضحایا، حدیث نمبر 2410۔ اور ”مسند امام احمد” باقی مسند الانصار، حدیث السیدة عائشہ، حدیث نمبر 23351 میں موجود ہے۔ جبکہ صحیح ترمذی و صحیح ابو دائود میں حضرت حنش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے عید الاضحی کے روز دو بکرے ذبح فرمائے، اور سوال پر فرمایا: ”مجھے رسول اللہۖ نے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں۔ لہذا میں حضورۖکی طرف سے قربانی کر رہا ہوں۔” یہ حدیث مبارک ”سنن ابو داؤد” کی کتاب الضحایا، باب الاضحےة من المیت، میں ہے جس کا نمبر 2408 ہے۔
سوال: قربانی کس پر واجب ہے؟ جواب: جس مرد یا عورت میں یہ شرائط پائی جائیں اس پر قربانی واجب ہے: مسلمان ہو، عاقل ہو، بالغ ہو، مقیم ہو، یعنی 57 میل اور 4فرلانگ (تقریبا 92 کلومیٹر) مسافت کے سفر میں نہ ہو یا ہو اور وہاں قیام پندرہ روز سے زیادہ ہو، حاجت اصلیہ (یعنی ضرورت کی چیزیں مثلاً مکان، لباس، استعمال کے برتن، سواری، اوزار وغیرہ) کے علاوہ ساڑھے 52 تولے چاندی کی قیمت کی نقدی یا سامان تجارت یا کسی اور نصاب کا مالک ہونا۔
Hazrat Ibrahim
سوال: قربانی کیوں واجب کی گئی؟ جواب: قربانی کو واجب کرنے کی اہم حکمت یہ ہے کہ جد الانبیاء سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی مثالی سیرت طیبہ جو کہ ایثار وقربانی اور احکامات خدواندی کی تعمیل سے عبارت ہے، اس کی یاد تازہ کرکے آپ کی اتباع کا جذبہ بیدار کیا جائے۔
سوال: قربانی کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہئے؟ جواب: بہتر یہ ہے کہ جانور خود ذبح کیا جائے بصورت دیگر کسی صحیح العقیدہ مسلمان کو اپنی طرف سے ذبح کرنے کیلئے کہا جائے۔ اور بوقت ذبح خود موجود رہنا بہتر ہے۔ ذبح کرنے والے کیلئے تکبیر ذبح ” بسم اللہ، اللہ اکبر” کہنا لازم ہے اور یہ کلمات کہنا مسنون ہے: ”اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن. اِنَّ صَلاَ تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِیْن. لاَشَرِیْکَ لَہ وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْن. اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ، بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ.
سوال: قربانی سے متعلقہ اہم مسائل کے بارے میں آگاہ فرما کر شکریہ کا موقع دیں! جواب: مسئلہ: اونٹ کیلئے پانچ سال، گائے بھینس کے لیے دو سال، بکری کیلئے ایک سال کا ہونا ضروری ہے۔ اگر چاند کے حساب سے عمر ایک دن بھی کم ہو تو قربانی جائز نہیں ہوگی۔ بھیڑ بھی ایک سال کی ہونی چاہئے، لیکن اس میں یہ تخفیف فرما دی گئی کہ چھ ماہ سے زیادہ عمر کی بھیڑ (بشرطیکہ اتنی صحتمند ہو کہ دیکھنے میں ایک سال کی محسوس ہوتی ہو، اس ) کی قربانی جائز ہے۔
مسئلہ : اندھے، کانے، لنگڑے، نہایت لاغر، ایک تہائی سے زیادہ کان یا دم کٹے، جس کا سینگ جڑ سے مع گودے کے ٹوٹ گیا ہو، جو جانور گندگی کھاتا ہو اور اسکے جسم سے بدبو آتی ہو، جس کے زیادہ دانت نہ ہوں اور ناک کٹے کی قربانی جائز نہیں۔ مسئلہ :گائے، بھینس اور اونٹ میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔ چاہے سب قربانی کرنے والے ہوں اور چاہے بعض قربانی کرنے والے اور بعض عقیقہ کرنے والے۔ لیکن کسی ایسے شخص کو شامل نہ کیا جائے جو بدعقیدہ ہو، یا محض گوشت کیلئے حصہ ڈال رہا ہو۔ ورنہ کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔
مسئلہ : جس پر قربانی واجب ہو، اسے پہلے اپنی واجب قربانی ادا کرنی چاہئے، پھر اگر مزید توفیق ہو تو نفلی قربانیاں کرے۔ حضور نبی اکرمۖ ایک قربانی اپنی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف سے کرتے تھے۔ اگر توفیق ہو تو اپنا واجب ادا کرنے کے بعد آقائے نعمت حضور نبی اکرمۖ اور اپنے بزرگوں بالخصوص والدین کو ایصال ثواب کیلئے قربانی کی جائے۔ مسئلہ : یہ جو مشہور ہے کہ گھرمیں ایک آدمی قربانی کر دے تو سب کاواجب ادا ہوجاتا ہے، غلط ہے۔ گھر میں جتنے مردوں یا عورتوں میں قربانی کے واجب ہونے کی شرطیں پائی جائیں، ان سب کو اپنی اپنی طرف سے علیحدہ علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے۔ مسئلہ : قربانی حج کی طرح عمر میں صرف ایک بار واجب نہیں ہے، بلکہ جس سال بھی شرائط پائی جائیں اس سال قربانی کرنا ضروری ہے۔
Pir Usman Afzal Qadri
تحریر: پیر محمد عثمان افضل قادری 0092-333-8403748 0044-744-0523140