امتِ مسلمہ ہر سال عید قربان پر سنتِ ابرا ہیم علیہ السلام پر عمل کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور یہ عمل پوری دنیا میں جہا ں جہاں مسلمان آباد ہیں تسلسل سے ہو رہا ہے ۔ اللہ نے جانوروں کو انسانوں کے لئے مسخر کر دیا یعنی بے زبان کر دیا۔ مسلمان جانوروں کی جو قربانی کرتے ہیں اللہ کو ان کی قربانی کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون بلکہ اللہ کو صرف انسان کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ عرب کے لوگ اس سے قبل جو قربانی کرتے تھے اس کا گوشت خانہ کعبہ کی دیواروں کے ساتھ لاکر رکھ دیتے تھے قربانی کے جانوروں کا خون کعبہ کی دیواروں پر مل دیتے تھے اس پر کہا گیا ہے کہ ا للہ کو گوشت اور خون کی ضرورت نہیں بلکہ انسان کے تقویٰ کی ضرورت ہے اور تقویٰ کیا ہےَ
کہ انسان دنیا میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچے اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہو ئی باتوں پر عمل کر ے ایک حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سمجھایا گیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ انسان جب کسی کھیت کی پکڈنڈی سے گزرتا ہے جس کے سائڈوں پر کانٹوں کی رو ہوتی ہے تو انسان اپنے پلو کو پکڑ کر کانٹوں سے بچ بچا کر گزرتا ہے یہی مثال یہاں اس دنیا کی ہے کہ یہاں گناہ بھی ہیں اور نیکیاں بھی انسان اپنے آپ کو گنائوں سے بچاکر زندگی گزارے جسے تقویٰ کہتے ہیں۔ قرآن شریف میں کہا گیا ہے کہ ہر”امّت کے لئے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تا کہ( اُس امّت )کے لوگ اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے اِنکو بخشے ھیں۔
( ا لحج ٣٤)ا سب سے بڑی قربانی دینے والے حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کو اللہ نے دنیا کا امام بنایا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام پر اللہ کی طرف سے عالمگیر دعوت کی ذمہ داری تھی۔ عر ا ق میں اُر کے مقام سے قاہرہ، شام، مکہ، فلسطین جبُرون عرب کے ملکوں تک سفر کیا۔ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام ورحضرت اسمعاعیل علیہ السلام مکہ میں، حضرت اسحاق علیہ السلام فلسطین میں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام سدوم میں حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کی ہدایت کے مطابق اللہ کے دین کے لیے کام کرتے رہے۔ اللہ کی آزمائشوں میں ابراہیم علیہ السلام پور ے اُترے۔ نمرود سے مباحثہ کیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے دعُا مانگی اے پروردگار مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو۔
Allha
اُ س د ُعا کے بدلے میں اللہ نے اُس کو ا یک حلیم برُدبار لڑکے کی بشارت دی۔ اورحضرت اسمعاعیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔ قرآن شریف میں ہے۔ ” وہ لڑکا جب اِس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچا گیا تو(ایک روز) ابراہیم علیہ السلام نے اس سے کہا، بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر ہا ہوں اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے۔ اُس نے کہا ابّا جان جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے کر ڈالیے آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔ آخر میں ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو ماتھے کے بَل گرِ ا دیا۔ اور ہم نے ندا دِی کہ اے ابراہیم علیہ السلام تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔
اور ہم نے ایک بڑی قربانی فد یے میں دے کر اِس بچے کو چھڑا لیا۔ اور اُسکی تعریف اور توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔ سلام ہے ابراہیم علیہ السلام پر ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں یقینا وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا اور ہم نے اسے اسحاق علیہ السلامکی بشارت دی۔ ایک بنی صالحین میں سے۔ اسے اور اسحاق علیہ السلام کو برکت دی اَب اُن دونوں کی ذرےّت میں سے کوئی محسن ہے اور کوئی اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والا ”۔ (سورة الصفٰت١٠١تا١١٣) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں پتھر کے بت بنا کر اس کی پوجا کی جاتی تھی اور ایک بہت بڑا بت گھر بنایا ہوا تھا جس میں بہت سے بت رکھے ہوئے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام ان بتوں سے نالاں تھے۔
توحید کے بارے میں اپنے باپ سے نالاں تھے۔قوم سے بتوں کے معاملے میں مناظرہ کیا۔ نمرود بادشاہِ وقت سے مناظرہ کیا۔ قرآن شریف میں ہے۔ ”اور اس کتاب میں ابراہیم کا قصّہ بیان کرو، بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہاکہ اباّ جان آپ کیوں اُن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں؟ اباّ جان میرے پاس ایک ایساعلم آیا ہے جو آ پ کے پاس نہیں آیا۔ آپ میرے پیچھے چلیں میں آپ کو سیدھا راستہ بتاوں گا۔ ابّا جان آپ شیطان کی بندگی نہ کریں، شیطان تو رحمان کا نافرمان ہے۔ ابا جان ،مجھے ڈر ہے کہیں آپ رحمان کے عذاب میں مبتلانہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کے رہیں۔
Hazart Abraham Alya lslam
باپ نے کہا ابراہیم علیہ السلام کیا تُو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے ؟ اگر باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے ا لگ ہو جا۔ ابراہیم نے کہا سلام ہے آپ کو۔ میں اپنے ربّ سے دُعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے۔ میرا ربّ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔ میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اوراُن ہستیوں کو بھی، جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو۔ میں تو اپنے ربّ کو پکاروں گا اُمید ہے میں اپنے ربّ کو پکار کرنامراد نہ رہوں گا۔پس جب وہ اُن لوگوں سے اور اُنکے معبودوںِغیر اللہ سے ُجدا ہو گیا تو ہم نے اُس کو اسحاق ابراہیم علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو بنی بنایا اور اِن کو اپنی رحمت سے نوازا اور اِن کو سچی نام وَری عطا کی” ( مریم٤١ تا ٥٠) حضرت ابراہیم علیہ السلام مکے گئے اسمٰعیل کی ٢ ولادت ہوئی، خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی اور قربانی کی۔
لاکھوں مسلمان حج کے موقعہ پر قربانی کرتے ہیں بلکہ ہر سال ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان سنتا براہیم علیہ السلام پر عمل کرتے ہیں اور رہتی دنیا تک اس سنت پر عمل ہوتا رہے گا۔ یہ ہے احسان ربّ کی طرف سے اپنے نیک بندوں پر حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہدی اس جانور کو کہتے ہیں جو کہ قربانی کے لیے مکہ میں روانہ کیا جائے اور تقلید کہتے ہیں اس جانور کے گلے میں کوئی چیز لٹکا دی جائے جس سے معلوم ہو کہ یہ جانور ہدی کا ہے موطاامام مالک میں یحےٰی بن سعید سے روایت ہے انہوں نے پوچھا عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے کہ جو شخص ہدی روانہ کرے مگر خود نہ جائے کیا اس پر کچھ لازم ہوتا ہے وہ بولیں میں نے حضرت عائشہ علیہ السلام سے سنا، کہتی تھیں محرم نہیں ہوتا مگر جو شخص احرام باندھے اور لبیک کہے اس سے معلوم ہوا ہدی روانہ کرنے والا محرم نہیں ہوتا بلکہ اگر خود اس کے ساتھ ہو جائے تو محرم ہو جاتا ہے۔
Muhammad (saw)
یہی قول اکثر علماء کا ہے۔ حضرت ابوھریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے براد بن عازب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا کام جس سے ہم آج کے روز کی ابتدا کرتے وہ یہ ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں پھر جا کر قربانی کرتے ہیں جس نے اِس پر عمل کیا اُس نے ہمارے طریقے کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کیا تو اُس کا شمار قربانی میں نہیں ہے بلکہ وہ ایک گوشت ہے جو اُس نے اپنے گھر والوں کے لیے مہیا کیا ایک دوسری حدیث میں آتا ہے، حضرت انس بن امالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا ہوں۔ یہ ہے قربانی جو اللہ کو قبول ہے جو اللہ اور اَس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق ہے مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے دن حضرت عائشہ علیہ السلامکی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہی صحیح مسلم میں کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قربانی کی اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے سات آدمیوں کی طرف سے یعنی اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات آدمی حصہ دار بن سکتے ہیں بخاری اور مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے اونٹوں کی خبر گیری کروں اور ان کے گوشت کو خیرات کر دوں اور چمڑا اور جھولیں بھی صدقہ کروں۔
قصائی کی مزدوری اس سے نہ دوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا مزدوری ہم اپنے پاس سے دیں گے یعنی اس سے معلوم ہو اکہ قربانی کے جانور کی اُجرت قصائی کو علیحدہ سے دینی چاہیے۔ قارئین! مسلمان آج پوری دنیا میں اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے پریشانیوں میں مبتلا ہیں جبکہ اللہ کا قرآن ہمیں ہدایت دیتا ہے تم ہی غالب ہو گے اگر تم مومن ہو گے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں میں اولین مسلمانوں جیسے تقویٰ کی صفت پیدا کر دے تاکہ ہم اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کر سکیں آمین۔