تحریر : شیخ خالد زاہد عازمین حج اپنی زندگی کے ایک اہم ترین عبادت کے فریضے کی ادائیگی سے فارغ ہوچکے ہیں۔ اللہ ہمیں اپنے گھر کی مھمان نوازی نصیب فرمائے اور جو لوگ اس سعادت کو حاصل کر چکے ہیں انکی عبادات اور دعاؤں کو قبول و مقبول فرمائے۔ اللہ رب العزت نے حج ان لوگوں پر فرض قرار دیا ہے جو صاحبِ حیثیت ہوتے ہیں۔ حج کے دیگر فرائض میں سے ایک قربانی بھی ہے ۔ قربانی صرف حاجی ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا جہان میں رہنے والے مسلمان اس فریضے کی ادائیگی بہت جوش و خروش سے کرتے ہیں۔
حج کے تقریباً تمام اراکین ہی اللہ سے اسکے مقرب بندوں سے محبت کے ثبوت اور دلائل ہیں۔ ان دلائل کا حج یعنی ایک اہم عبادت کا حصہ بنا دینا اللہ کی جانب سے اپنے بندوں کی محبت اور سرشاری کو تسلیم کرنا اور قبولیت کے درجے پر فائز کرنے کے ہیں۔ دنیا کی محبت میں ماں کی محبت کو سب سے مقدم اور افضل قرار دیا گیا ہے یعنی ماں سے زیادہ کوئی محبت نہیں کرسکتا اور اس بات کی کوئی نفی بھی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ بھی ایمان کے جز کی مانند قرار پایاہے جبھی تو کہا گیا ہے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ اللہ اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے ۔ ایک طرف تو ستر ماؤں اور اس سے بھی زیادہ، کتنا خیال رکھے جانے کی نوید سنائی ۔ ایک ماں اگر ہے تو پھر خیال رکھنے والا ستر ماؤں سے زیادہ خیال رکھے ہوئے ہے۔ اب یہ ہماری کوتہیاں اور لغزشیں ہیں جوہمیں ہلکان کئے رکھتی ہیں۔ ہم اپنی چلانے پر مضر ہیں ۔ آج تقریباً والدین ایک ہی مشکل کا راگ آلاپتے سنائی دیتے ہیں کہ اولاد نافرمان ہوئے جا رہی ہے ۔ آسائشوں کا اور آسانیوں ایک ایسا ماحول ہے کہ احاطہ کرنا مشکل دیکھائی دے رہا ہے۔ ہم سب اپنی اپنی منتقوں میں زندگی گزارنے پر بضد ہیں ایک ضابطہ حیات ہمیں فراہم کیا گیا ہے ۔ اس ضابطہ اخلاق کو ہم اپنے طور سے الٹ پھیر کرنے میں مصروف ہیں۔ جو بظاہر تو نافرمانی نہیں معلوم ہوتی مگر اس سے کہیں دور بھی نہیں ۔
اللہ کی راہ میں قربان ہونا اور کرنا دونوں ہی اللہ کیلئے مقبول ترین اعمال ہیں ، اگر یہ مقبول نا ہوتے اور آج تک بلکہ رہتی دنیا تک سنتِ ابراہیمی کو زندہ نا رکھا جاتا۔ دنیا جب تک قائم و دائم ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ زندہ و جاوداں رہیگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اولاد بڑی عمر میں نصیب ہوئی اور اسکو قربان کرنے کا اللہ کی جانب سے حکم کا آنا اور اس حکم پر سر خم تسلیم کرنااللہ سے اور اسکے قانون سے محبت کا ثبوت تھا۔ یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا کسطرح اپنے بندے کی قربانی کروا دے۔ یہ صرف اور صرف آزمائش نہیں تھی بلکہ رہتی دنیا تک کیلئے یہ بات واضع کرنی تھی کے ایمان والوں کی محبت صرف اور صرف اللہ کیلئے ہوتی ہے۔
علامہ اقبال نے یہ تو بتا دیا تھا آذان توہے پر روح بلالی نا رہی مگر یہ بات شائد ابھی تک ثابت ہونے سے قاصر ہے کہ قربانی تو ہے پر روح ابرہیمی نا رہی ، اللہ کے امتِ محمدﷺ پر خصوصی احسانات کی ایک طویل فہرست ہے جس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہماری نیتیں کسی بھی طرح سے دیکھائی نہیں دیتیں اور احساسات معدوم ہونے کے سبب کسی کا اندازہ لگانا بھی مشکل کام ٹہرچکا ہے۔ مگر معاشرے میں دیگر امور میں ایک انجانی دوڑ کی طرح قربانی میں بھی ایسی ہی دوڑ دیکھائی دے رہی ہے۔ مہنگے سے مہنگا جانور خریدہ جاتا ہے کہیں ایک دوسرے کے جانور پر کسی نا کسی قسم کا نقص نکالا جاتا ہے تو کہیں یہ بھی سنا جاتا ہے کہ ہلکا جانور لے آئے، اسی طرح کی اور بھی بہت ساری باتیں سماعت سے ٹکراتی پھرتی ہیں ۔
کیا ہم تصور کرسکتے ہیں کس طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لختِ جگر اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں ذبحہ کرنے لئے لٹایا ، خواب سے ذبحہ ہونے تک کے معاملات بھی تصور کر لیجئے ۔ ہمارے تصور کی حد ختم ہوجائیگی ہم دنیا دار لوگ ایسے تصور کی پرچھائی بھی محسوس نہیں کرسکتے ۔ کیا ماں تھیں کہ شیطان نے ورغلایا کہ آپکے لختِ جگر کو ذبحہ ہونے سے روکئے جس آپ نے کہا کہ ابراہیم خلیل اللہ غلط نہیں ہوسکتے پھر شیطان اسماعیل علیہ السلام پر نافرمانی کرنے کو اکسانے گیا اور منہ کی کھانی پڑی اب وہ ابراہیم علیہ السلام کی جانب بڑھا تو آپ نے کنکری اٹھا کر ماری ، پھر بڑھا پھر کنکری ماری اور پھر یہی عمل دھرایا یہ بھی وہ عمل ہے جو آج تک جاری و ساری ہے ۔
ہر عید الاضحی پر سنت ابراہیمی کا بھرپور مظاہرہ کیا جاتا ہے ایک سے بڑھ کر ایک جانور اللہ کی راہ میں ذبحہ کیا جاتا ہے مگر ہم نے کبھی اس نفس کو ذبح کرنے کی کوشش نہیں کی جسکی سرکشی ہمیں ہر غلط کام پر اکساتی ہے اور ہم بہت شان سے وہ کام کئے جاتے ہیں۔ وہ نفس جو ہمیں تکبر کی سیڑھی پر لا کر کھڑا کردیتا ہے وہ نفس جو ہمیں قربانی کے جانور کی خرید میں دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے اکساتا ہے۔
ہمیں خود کویقین دلانا چاہئے کہ یہ قربانی یہ رمضان کی عبادات یہ فقط ہم سے ایک ماہ کیلئے یا پھر ایک دن کیلئے مسلمان ہونے کا تکازہ نہیں کرتے بلکہ یہ ہماری تربیت کرتے ہیں اور ہمیں ہماری ساری زندگی احکام الہی پر گزارنے کا درس دیتے ہیں ۔ کیونکہ ہم سب کو لوٹ کر واپس اسی رب ذولجلال کے حضور پیش ہونا ہے ۔ ہم عہد کریں کہ اپنی اپنی قربانیوں کو روح ابراہیمی سے مشابہ بنائینگے۔