اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مشرقی حصہ مشرقی پاکستان کہلاتا تھا ۔بر عظیم میں اسلامی نشاةثانیہ کے پہلے پتھر حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز جمہوری اورپر اُمن تحریک کے ذریعے پاکستان حاصل کیا تھا۔تحریک پاکستان کا سلوگن الالہ الا اللہ تھا۔آل انڈیامسلم لیگ کے نعرے ، پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الا اللہ” ۔لے کے رہیں گے پاکستان ، بن کے رہے گا پاکستان اور مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ تھے۔ قائد اعظم نے اُس وقت کی دو طاقتوں، قوم پرست ہندو اوراُس وقت کی سرمایادارنہ تہذیب کے سرخیل اور ہندوستان پر قابض انگریزکو پر امن، دلیل اور وقت کے جمہوری طریقے سے شکست دے کر اُس وقت کی اسلامی دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست پاکستان حاصل کی تھی۔
تاجروں کے بھیس میں انگریزوں نے پہلے غداروں سے مل کر اور پھر طاقت حاصل کر کے ہندوستان کااقتدارمسلمانوں سے چھینا تھا۔ مسلمانوں کا ڈر ان کے دلوں پر پہلے دن سے چھایا ہوا تھا۔اس لیے انگریز نے ہندوئوں کو ترقی کے راستوں پر ڈالا۔ ان کے علاقوں میں بھاری انڈسٹری لگائیں۔ انہیں حکومتوںعہدوں پر تعینات کیا۔غرض مسلمانوں سے ہر معاملے میں آگے آگے رکھا ۔ مسلمانوں میں جہاد کی وجہ سے انگریز ہمیشہ خوف زدہ رہتاتھا۔ مسلمانوں میں جہاد ختم کرنے کے لیے مرز غلام محمد د قادیانی کو کھڑا کیا تھا۔اس کا نظارہ وہ ١٨٥٧ ء کی جنگ آزادی، جسے وہ غدر کہتا ہے دیکھ بھی چکا تھا۔جب پاکستان بن رہا تھا تو ہندلیڈر شب نے کہا تھا کہ اب تو وہ مجبور ہیں کہ پاکستان بن رہا ہے ۔ مگر پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کو ہم آہستہ آہستہ سیکولر کے نظریہ سے تبدیل کر کے پاکستان کو اپنے ڈاکٹرئین کے مطابق دوبارہ اکھنڈ بھارت میں ضم کر لیں گے۔ وہ اسی پر مشرقی پاکستان میں اپنے راستے ہموار کر رہا تھا۔قائد اعظم کو اللہ نے پاکستان بننے کے سال بعد ہی اپنے پاس بلا کیا۔
سیاست دانوں نے قائداعظم کے دو قومی اور اسلامی وژن کو ایک طرف رکھ دیا۔ کہاکہ اس دور میں چودہ سو سالہ پرانہ اسلامی نظام حکومت نہیں چل سکتا۔ حالاں کہ تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم نے بار بار اسلامی تاریخ کے حوالے دے کر کہا تھا کہ ہم پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کریں گے۔اسی لیے جن صوبوں میں پاکستان نہیں بننا تھا ان علاقوں کے مسلمانوں نے پاکستان کے حق میں راے دی تھی۔ برعظیم کے مسلمانوں نے اپنے رب سے عہد کیا تھا کہ ہمیں آزاد ریاست دے ہم اس میں تیر ا نظام قائم کریں گے۔ سیاستدانوں نے اپنے اللہ سے باندھا ہوا عہد توڑ دیا۔ اللہ نے بھی ان کو سزا دی۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کے ہندو اسکول ٹیچروں کے ذریعے مسلمان بچوں کی ذہین تبدیل کر کے بنگلہ قومیت کازہر بھرا۔قائد اعظم نے ڈھاکا میں کہا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہو گی۔ صوبے اپنی اپنی زبانیں رائج کر سکتے ہیں۔مگر مسلم لیگ نے مشرقی پاکستان میں زبان کے معاملے کی میں صحیح تشریع نہیں کی۔گو کہ ١٩٥٦ء کے مشترکہ آئین میں پاکستان کی دو زبانوںاُردو اور بنگالی کو تسلیم کیا گیا۔
ڈکٹیٹر ایوب خان نے اس آئین کو مارشل لگا کر منسوخ کر دیا۔یہ بات بھی مشہور ہوئی تھی کہ ایوب خان نے کسی مشرقی پاکستان کے رکن اسمبلی وکسی سے کہلوایا تھا کہ آپ ہم سے علیحدہ کیوںنہیںہو جاتے ۔ اُس رکن اسمبلی نے جواب دیا تھا کہ ہمیشہ اقلیت اکثریت سے علیحدہ ہوتی ہے۔ تم اقلیت ہو چاہو، توہم سے علیحدہ ہو جائو۔ سید مودودی نے کہا تھا کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کو صرف اسلامی نظام حکومت ہی یک جان رکھ سکتا ے۔ قائد اعظم کا بھی یہی وژن تھا۔ مسلمان حکمرانوں نے اسلامی نظام حکومت ،خلافت کے تحت دنیا کی سیکڑوں قوموں، تہذیبوں، ثقافتوں اور زبانیں بولنے والوں پر حکومت کی تھی۔ ان کو اسلام کے نام پرہی ایک لڑی میں پروئے رکھاتھا۔ مگرحریت کا مقام ہے کہ مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے صرف ایک بنگالی بھائیوں کو ایک ساتھ ملا کر نہ رکھ سکے۔ شیخ مجیب کی بنگالی قومیت اور پاکستان کی ازلی دشمن بھارت کی مدد سے بلا آخر پاکستان کے دو ٹکڑے کر دے گئے۔ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس پر کہا تھا کہ قائد اعظم کا دو قومی نظریہ میں نے خلج بنگال میں ڈبو دیا۔ مسلمانوں کے ہنددئوں پر سو سالہ حکومت کابدلہ بھی لے لیا۔
مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہونے سے بچانے کے لیے پاکستانی فوج کا جماعت اسلامی نے ساتھ دیا تھا۔ جماعت اسلامی، اس کی ذیلی تنظیم البدر اور الشمس کے نوجوانوں نے بھارتی فوج اور مکتی باہمنی کے ساتھ لڑائی کی۔ پاکستان کی فوج نے البدر اور الشمس کے نوجوانوں کے لیے کیا تھا کہ ہم نے ایسے بہادر کہیں نہیں دیکھے ۔ فوج سے آگے بڑھ کر پاکستان کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ البدر اور الشمس کے دس ہزار نوجوان شہد ہوئے تھے۔یہ بنگالی نوجوان تھے جو سیدمودودی کی دعوت پر اسلام کے عملی نفاذکے ہراوّل دستے کا حصہ تھے۔ سید سلیم منصور خالد،نائب مدیرماہنامہ عالمی رسالہ ترجمان لاہور نے اپنی کتاب”البدر ”میں مجائدین البدرکے مظالم کے واقعات بیان کرتے ہولکھتے ہیں۔لکھتے ہیںکہ البدر کے ایک نوجوان کو مکتی باہنی کے غنڈوں نے ایک بھیڑ کے سامنے پیش کیا۔ مکتی باہنی کے غنڈے داہرے کی شکل میں کھڑے تھے۔ درمیان میں ایک البدر مجائد
٢ گھڑا تھا۔ مکتی باہنی کے غنڈوں نے اس سے کہا کہ کہو بنگلہ دیش زندہ باد۔البدر مجائد نے جواب میں کہا اسلام زندہ باد۔ پاکستان زندہ باد۔پھرکانٹے لائے گئے۔ مجاید سے کہا گیا گھڑا کھودو۔ مجائد نے اپنے ہاتھوں سے گھڑا کھودہ۔اسے کہا گیا اس گھڑے میں کانٹے ڈالو۔ مجاہد نے اپنے ہاتھ سے کانٹے ڈالے ۔ پھر کہا گیا ،کہو بنگلہ دیش زندہ باد ۔ مجاہد نے کہا ۔ اسلام زندہ باد ۔پاکستان زندہ باد۔کئی بار مکتی باہنی کے غنڈوں نے کہا کہ کہو۔ بنگلہ دیش زندہ باد۔ مجائد نے پھر جواب میں کہا اسلام زندہ باد ۔ پاکستان زندہ بعد۔اس کے بعد اس مجاہد کو زندہ کانٹوں والے گھڑے میں ڈال دیا گیا۔پھر زندہ مجاہد کے اوپر مٹی ڈال کر گھڑے کو مٹی سے بھر دیا۔ ایسے ہی ایک البدر نوجوان کو مکتی باہنی کے غنڈوں ایک بھیڑ میں لائے۔ اس بھی کہا کہ کہو بنگلہ دیش زندہ باد۔ اس نے بھی کہا اسلام زندہ۔پاکستان زندہ باد۔اس مجاہد کا پہلے ایک بازو کاٹا گیا۔ پھر وہی گردان دھرائی گئی۔
نوجوان نے بھی وہی پہلے والاجواب دیا۔ پھر اس کا دوسرا بازوکاٹا گیا۔ اور کہا کہ کہو بنگلہ دیش زندہ باد۔ اس نے پھر جواب دیا اسلام زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد۔ بلا آ خر اسے بھی گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔مکتی باہنی کے غیر بنگالی مسلمانوں پرمظالم پر کئی کتابیں بھی لکھی گئیں ہیں۔ اب بھی ایک عرصہ سے جماعت اسلامی کے چھ مرکزی لیڈروں، جس میں امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش سیکرٹیری اسلامی بنگلہ دیش، ممبر قومی اسمبلی اوردیگر عہدہ داروںکو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے بھارت کی اشیر آباد جنگی جراہم کے ایک نام نہا د ٹریبیونل میں مقدمے چلا کر پھانسیاںپر لٹکا دیا۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کو ناجائز ٹریبیونل کہا ہے۔ مقدمے کے طریقہ کار پر بھی اعتراض اُٹھائے ہیں۔
بھٹو،مجیب اور اندرا نے ایک معاہدہ کیا تھا۔ جس میں پرانی رنجسیں ختم کر دی گئی تھیں۔ پاکستان نے بنگلہ دین کو تسلیم بھی کر لیا۔ پاکستان آرمی کے سربراہ نے بنگلہ دیش کے دورے کے دوران روائتی معافی بھی مانگ لی تھی۔ پاکستان کی حکومت اور فوج نے اپنے محسنوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور اس معاہدے کو سامنے رکھ کر بنگلہ دیش سے رسمی احتجاج تک نہیں کیا،بلکہ کہا کہ یہ بنگلہ دیش کا اندورنی معاملہ ہے۔ اس پر راقم الحروف نے احتجاج کرتے ہوئے ایک کالم”پھر کون البدر و الشمس بنائے گا” لکھ کراخبارات میں شائع ہونے کے لیے بھیجا تھا،جو کئی اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ یہی بات ہے کہ اگر آیندہ اللہ نہ کرے کبھی پاکستان پر ایسا وقت آیا تو پھر کون البدر ، الشمس بنائے گا۔ ہم تو پاکستان کے عوام کے سامنے اپنا مقدمہ رکھ رہے ہیں کہ آپ کو پاکستان کے لیے جماعت اسلامی سے اور کتنی قربانیاں چاہیے ہیں؟