تحریر: پروفیسر رفعت مظہر بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں”چاچا بھتیجا”کی جنگ جاری، کپتان صاحب نے بلاول زرداری کو مخاطب کر کے کہا کہ بھتیجے ! لکھی ہوئی تقریریں پڑھنے سے کوئی سیاستدان نہیں بن جاتا ۔جواباََ بلاول زرداری کا ”پھڑکتا” جواب ” چاچا عمران !سیاست میرے خون میں شامل ہے ۔مجھے سیاست سکھانے کی بات کرتے ہیں۔ کیا مچھلی کے بچے کوکوئی تیرنا سکھاتاہے؟”۔ آج پھر بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کا ڈول ڈالاجا رہا ہے ۔پنجاب کے 8 اور سندھ کے 12 اضلاع میںووٹنگ جاری ، نتیجہ سب کو معلوم کہ پنجاب نوازلیگ اور سندھ پیپلزپارٹی کا، تحریکِ انصاف کا ”کَکھ” بھی نہیں، اُس کاکوئی ”ٹانواںٹانواں” اُمیدوارجیت جائے توالگ بات ۔یہ بھی اظہرمِن الشمس کہ تحریکِ انصاف نے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرتے ہوئے دھاندلی ،دھاندلی پکارناہے کہ ”وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نے”۔
قارئین کویاد ہوگا کہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میںانتخابات سے صرف دو دِن پہلے تحریکِ انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے عمران ریحام علیحدگی کا ”کھڑاک” کردیا اوراب دوسرے مرحلے سے بھی عین دو دِن پہلے ریحام خاںکا ”کھڑاک” بصورت ”نَوحہ” سامنے آگیا۔ برطانوی روزنامہ ”دی گارڈین” میںشائع ہونے والے مضمون میںروتی پیٹتی ریحام خاںکاسارا زورپاکستانی میڈیاپر یاپھر یہ کہ” پاکستانی معاشرے میںعورت کااستحصال کیاجا رہاہے” ۔ اُس نے لکھا”ایک غریب ،اَن پڑھ عورت اور میرے جیسی دونوں طرح کی عورتیں خطرات کامقابلہ کرنے کے لحاظ سے کمزورہیں ،کوئی بھی مرداُن پرکیچڑ اچھال سکتاہے ،گالی دے سکتاہے ،کردارپر انگلی اٹھاسکتا ہے۔
Reham
اکثر باپ ،بھائی ،شوہراور بیٹے محبت اورتحفظ کے نام پر خواتین کے بنیادی حقوق کو بیدردی سے پامال کرتے ہیں”۔ عجیب بات ہے کہ ریحام خاںکو یہ سب باتیں لندن پہنچنے پرہی یاد آئیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کسی سیاستدان یا میڈیانے کب ریحام خاں کے کردار پر کیچڑ اُچھالایا اُسے گالی دی البتہ یہ ضرورکہ عمران خاں سے علیحدگی کے موقعے پر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے اراکین کو اِس موضوع پر بات کرنے سے شدت سے منع کردیا ۔ ”قومی بھابی” یہ توجانتی ہی ہوگی کہ اُس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پرنٹ ،الیکٹرانک میڈیااور سونامیے بیتاب ہواکرتے تھے اوروہ بھی ہرجگہ عمران خاںکے پہلومیں پائی جاتی تھی ۔خواتین کے جس استحصال کارونا وہ رورہی ہے اُس کی کوئی جھلک پاکستان کے کسی دوردراز گاؤںمیں پائی جاتی ہو تو الگ بات (ایسا دُنیاکے ہرملک میںہوتاہے ) وگرنہ حقیقت یہی کہ وطنِ عزیز کے ہرشعبے ، حتیٰ کہ افواجِ پاکستان تک میں بھی خواتین بلاخوف وخطراپنا بھرپور کردار اداکر رہی ہیں۔
میری اپنی” سکِن سپیشلسٹ ” میجرڈاکٹر بیٹی پاک فوج میںخدمات سرانجام دے رہی ہے۔ اُسے اپنے فرائضِ منصبی اداکرنے کے لیے اکثردوردراز اور پُرخطر مقامات پربھی جاناپڑتاہے ، پھربھی وہ مکمل طورپر مطمئن۔ اب توایئرفورس میںبھی خواتین پائلٹ بھرتی ہورہی ہیں۔ NGO’s کی خواتین تواتنی بیباک اور”مُنہ پھَٹ” کہ اللہ کی پناہ۔ کیا سابق ”قومی بھابی” یہ بتاسکتی ہیںکہ پاکستان میں کونسا ایسا شعبہ ہے جہاں خواتین اپنی خدمات سرانجام نہیںدے رہیں؟، البتہ سڑکوں پر سرِعام بانہوں میں بانہیں ڈال کرڈانس کرنے کا رواج پہلے کبھی تھا نہ اب ہے اور انشاء اللہ نہ کبھی ہوگا۔ جس ملک میںدو مرتبہ خاتون وزیرِاعظم رہی ہو،اُس کے معاشرے کوبھلا کیسے استحصالی معاشرہ کہاجا سکتاہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ریحام خاںبھی توپاکستان کی” وزیرِاعظم” یاکم ازکم ”خاتونِ اوّل” بننے کاخواب سجاکر ہی کپتان صاحب کی زندگی میں داخل ہوئی لیکن جب دال نہ گلی تو ”پھُر” ہوگئی۔
BBC
جس الیکٹرانک میڈیاپہ برطانیہ میں بیٹھ کر ریحام خاں گرج برس رہی ہے ،یہ اُسی میڈیا کا کمال ہے جس نے اُس کو راتوں رات آسمان کی رفعتوں تک پہنچادیا ۔کیا یہ پرنٹ اور پر موسم کاحال بتانے والی ایک عام سی خاتون کو یکلخت ”قومی بھابی” کادرجہ دے کراُس کے دماغ میںایسا ”خنّاس” بھر دیا کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے خواب دیکھنے لگی؟ ۔ریحام خاںکہتی ہے ”خواتین زیادہ تر ساس یابہو کی مداخلت کی شکایت کرتی ہیںلیکن شاید ”قومی بھابی” ہونے کا مطلب تھاکہ پوراملک میراسسرال ہوگیااور ہرکسی کومیرے متعلق بولنے کااختیار حاصل ہے”۔ محترمہ کوعلم ہوناچاہیے کہ یہ قوم کی عمران خاںسے والہانہ محبت کانتیجہ تھا جس نے اُسے شہرت کی بلندیوںتک پہنچادیا۔ گزرے 10 ماہ کے دوران جتنی عزت اورشہرت ریحام خاںکے حصّے میںآئی ،اُس کے اب وہ ساری زندگی خواب ہی دیکھا کرے گی۔
ریحام خاںکو یہ دُکھ کہ ”شادی کے وقت مجھے میڈیامیں تین بچوںکی طلاق یافتہ ماںکے طورپر پیش کیاگیا لیکن مجھے حیرت ہے کہ میڈیانے عمران خاںکی جمائماگولڈسمتھ سے شادی اورطلاق کاکوئی تذکرہ نہیںکیا”۔ عرض ہے کہ ”چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک” ،جمائما ایک انتہائی سنجیدہ اورباوقار خاتون تھیںاور ہیں ۔وہ 9 سال تک عمران خاںکی زندگی میںرہیں جبکہ ریحام خاںصرف 9 ماہ تک ۔جمائمااور عمران خاںکے درمیان باہمی احترام کارشتہ آج بھی برقرارہے اوردونوں نے کبھی ایک دوسرے کے خلاف کوئی بیان نہیںدیاجبکہ دوسری طرف عمران خاں آج بھی ریحام خاںکے خلاف ایک جملہ بھی برداشت نہیںکر سکتے البتہ ریحام خاںبرطانیہ پہنچتے ہی پھَٹ پڑی۔
PTI
رہا تین بچوں کی طلاق یافتہ ماں ہونے کا معاملہ تو کیا میڈیانے کچھ غلط کہا؟۔ کیا میڈی اسے تھوڑا بہت تعلق رکھنے والی ریحام خاں نہیں جانتی کہ میڈیا کا تو کام ہی عوام تک اطلاعات بہم پہنچاناہے؟۔ اگر میڈیانے کچھ غلط کہاتو پھرریحام خاں کا ”نوحہ” بجا لیکن اگریہ سب کچھ درست ہے توپھر اِس پرچیں بہ چیں کیوں؟۔ ریحام خاں کہتی ہے کہ میڈیا اُس کے خلاف بولتا رہا لیکن اکابرینِ تحریکِ انصاف میں سے کوئی بھی اُس کی مدد کو نہیں آیا ۔جب میڈیاکی ساری اطلاعات ہی حقائق پرمبنی تھیں تو پھر بھلا ریحام خاں کی مدد کون کرتا۔ علیحدگی کے بعدسے اب تک ریحام خاں کئی بیانات بدل چکی ہے جواُس کے جھوٹاہونے کا واضح ثبوت ہے۔
پہلے اُس نے جہانگیرترین اور تحریکِ انصاف کے دیگر اکابرین کو علیحدگی کاذمہ دارٹھہرایا لیکن اب کہتی ہے کہ علیحدگی کاذمہ دار اور کوئی نہیں ”ہم دونوں ہیں”۔ حرف آخریہ کہ تمام تر اختلافات کے باوجودعمران خاں ہمارے اپنے ہیں اور قومی اثاثہ بھی البتہ ریحام خاں ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت عمران خاںکی زندگی میں داخل ہوئی اور ایجنڈے کی عدم تکمیل پر ”پھُر” ہوگئی اِس لیے کم ازکم اِس معاملے میں عمران خاں کو موردِالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔