پچھلے دنوں دو انتہائی افسوسناک خبریں ہم سب کی نظروں سے گزری ہیں۔ پہلی خبر ملتان سے یہ کہ: وہاں پر ایک نوجوان نے جعلی پیر کے کہنے پر زیر زمین خزانے کو باہر لانے اور اپنے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے گھر کے اندر ایک گڑھا کھودنا شروع کیا اور جب وہ گڑھا 40 فٹ گہرائی تک جا پہنچا تب مذکورہ نوجوان خزانے کی حصول کے لیے گڑھے کے اندر چلا گیا۔
جیسے ہی وہ نوجوان اندر اترگیا اوپر سے مٹی کا ایک تودہ گرکر نوجوان کے اوپر جا لگا اور وہ وہی مٹی کے اندر دب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ بعد میں ریسکیو ٹیموں کولاش نکالنے میں جس مشقت و اذیت سے گزرنا پڑا وہ ایک الگ داستان ہے جس کا ذکر کرنا یہاں مقصود نہیں۔ دوسری خبر مری سے ہے کہ وہاں پر ایک شقی القلب ماموں نے اپنے تین سگے بھانجوں کو ایبٹ آباد سے سیرو تفریح اور گھمانے کے بہانے مری لایا۔
لانے کے بعد تینوں کو جنگل میں لے جاکر ذبح کر ڈالا۔ دو معصوم پھول موقع پر ہی مرجھا گئے، جبکہ تیسرے بچے زین نے اپنے اعصاب و حواس کو برقرار رکھتے ہوئے کٹے گلے کے ساتھ کسی نہ کسی طرح روڈ تک پہنچ کر لوگوں کو خود پر بیت جانے والی قیامت سے اگاہ کیا۔ لوگ جب موقع پر پہنچے تو وہاں زخموں سے چور دو ننھے بچوں کی لاشیں انکی منتظر تھیں جبکہ انکا قاتل ماموں موقع سے فرار ہوچکا تھا۔ بعد کے بیانات سے پتہ چلا کہ کسی عامل نے بچوں کے ماموں کو کہ رکھا تھا کہ اگر من کی مراد پورا کرنا چاہتے ہو تو کم از کم تین انسانی زندگیوں سے کھیلنا پڑے گا۔ نتیجتاً ماموں نے اس جعلی عامل کے کہنے پر لبیک کہتے ہوئے اپنے تین سگے بھانجوں کو ذبح کر ڈالا۔
Shahbaz Sharif
اس ظالمانہ واقعے کے بعد نہ صرف متاثرہ شہروں کی فضاء سوگوار ہے۔ بلکہ یہ غم پورے پاکستان میں محسوس کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے سخت کارروائی کرنیکا عندیہ دے دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعلٰی پنجاب کے نوٹس لینے سے مجرم کو سزا مل سکی گی اور کیا نوٹس لینے کی نتیجے میں آئندہ اس قسم کی ناخوش گوار واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک تعلق ہے مجرم کو سزا دینے کا۔ تو اگر پولیس ایمانداری کا مظاہرہ کرے تو عین ممکن ہے کہ مجرم بہت جلد قانون کے شکنجے میں آجائے۔ اور قانون اس کے لیے سخت سے سخت سزا تجویز کریں۔ اب آئیں اس سوال کی طرف کہ کیا آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟ میرے خیال میں نہ تو آئندہ اس قسم کے ناخوش گوار واقعات روکنے کا کوئی چانس ہے اور ناہی ہمیں اس حوالے سے کسی خوش فہمی میں مبتلاء ہونے کی ضرورت۔ کیونکہ جس کام کے پیچھے برسوں کی محنت، طاقتور میڈیا کا دباؤ، سول سوسائٹی کی پشت پناہی اور اعلٰی حکومتی شخصیات اور اداروں کا بھر پور دباؤ ہو۔ اسے چند ایک کھوکھلے بیانات سے کسی بھی صورت ختم نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ مذکورہ بالا اداروں اور شخصیات کی طرف اشارہ کرنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ کہیں مذکورہ کردار بلاواسطہ اس قسم کے مجرمانہ سرگرمیوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ بالواسطہ مذکورہ بالا کردار ہی اس قسم کے غیر انسانی و ظالمانہ حرکتوں کے پشتیبان نظر آتے ہیں۔ وہ کیسے؟ تو ملاحظہ فرمائیں۔
پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے۔ اس لیے دین اسلام سے رہنمائی یہاں کے باشند گان کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ ضرورت اس لیے کہ دین سے رہنمائی لیے بغیر کہ ہم خود کو پہچان سکتے ہیں اور ناہی انسانی اقدار کو ۔ اور مجبوری اس لیے کہ اگر ہم دین سے رہنمائی لینا چھوڑ دیںتو پھر شائد چند سال کے اندر ہی ہمارا خاندانی نظام، بھائی چارے کی فضاء اور معاشراتی اقدار تتر بتر ہوجائے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جب سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ میں شریک ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک ایک منظم منصوبے کے تحت اہل وطن کو اسلام اور اسلام پسندوں سے بد ظن کیا جارہا ہے۔ مثلاً: حق اور باطل کے درمیان جب بھی کوئی معرکہ برپا ہوا۔
دینی تربیت کے حامل افراد نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا اور کبھی بھی کسی کے دھونس، دھمکیوں اور لالچ سے مرعوب نہیں ہوئے۔ موجودہ امریکی جنگ میں بھی وہی افراد نے امریکی بالادستی سے صاف انکار کردیا جنکی تربیت دینی خطوط پر ہوئی تھیں۔ لہٰذا امریکہ اور اس کے مقامی الہ کاروں نے کمال ہوشیاری سے امریکہ کے خلاف جہاد کو پہلے دہشت گردی سے تعبیر کیا، پھر اس ” دہشت گردیِِ،، کا تعلق مدارس سے جوڑدیا، پھر یہ کہا گیا کہ مدارس دہشت گردوں کے اڈے اور ٹریننگ کیمپ ہیں۔ لہٰذا عوام کو روشن خیالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ” انتہاء پسندوںِ،، سے دور ہی رہنا چاہیے۔ اس جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کا یہ اثر ہوا کہ عوام نے دینی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے مستند علماء کرام کے پاس جانے کی بجائے نام نہاد عاملین کے پاس جانا شروع کر دیا۔
پھر اس کے جو نتائج آنے شروع ہوئے اس پر دلائل و بحث و مباحثے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ ملتان اور مری کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔ حالانکہ مری اور ملتان کے واقعات جیسے کئی واقعات اس سے پہلے بھی قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔ اور خدشہ ہے کہ آگے چل کر اس قسم کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ کیوں لگ ایسا رہا ہے کہ متعلقہ ادارے نام نہاد عاملین کے خلاف عملاً کوئی قدم اٹھانے کو تیار نہیں بلکہ غیر محسوس انداز سے انکی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ پچھلے دنوں ایک پشتو ڈرامہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
Aamil Baba
اس ڈرامے میں دو دفعہ دو مختلف عاملین کے ” کرامات،، کا اشتہار چلا۔ کہ کس طرح سے وہ عاملین پریشانیوں میں گھری اہل وطن کے تمام مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اخبارات میں اشتہارات اور کیبل ٹی وی نیٹ ورک کے ذریعے جس طریقے سے ان عاملین کو عوام کا مسیحا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی ایسے عاملین کے کہنے پر اپنے دو، چار بھانجے ، بھتیجوں کو ذبح کرکے ان کی بوٹیاں بھی بنائے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ کیوںکہ جو فصل ہم نے کل بوئی تھی ،آج اسے کاٹنا تو پڑے گا۔