قدم بڑھاؤ اور تختہ دار

 Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر: روہیل اکبر

میاں نواز شریف کے حق میں نعرے لگ رہے ہیں کہ قدم بڑھاؤ ہم تمھارے ساتھ ہیں اسی طرح کے نعرے ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں بھی لگتے تھے اور اسے بھی نئے سال کی آمد سے صرف دو دن قبل 30 دسمبر کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا یہ وہی صدام حسین تھا جسکے حق میں مظاہرے ہوا کرتے تھے کہ صدام حسین قدم بڑھاؤ ہم تمھارے ساتھ ہیں میں نے خود لاہور کی سڑکوں پر ایسے سینکڑوں جلوس دیکھے یہ مظاہرے نہ صرف پاکستان میں ہوئے بلکہ دنیا کے اکثر اسلامی ممالک میں صدام حسین کے حق میں جلسے،جلوس اور ریلیاں نکال کر قدم بڑھاؤ والے مشورے دیے جاتے رہے اور پھر جب صدام حسین کو تختہ دار کی طرف لے جایا جارہا تھا تو اس وقت سبھی نعرے لگانے والے خاموش تماشائی بن کر یہ منظر دیکھ رہے تھے۔

صدام حسین کی کہانی بھی عجیب رنگوں سے بھری پڑی ہے بچپن میں ہی والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ انہیں اپنے رشتہ داروں کے پاس چھوڑ کر کسی اور گاؤں چلیں گئیں اور دوسری شادی کر لی سوتیلے والد کے ناروا رویے نے صدام حسین کی زندگی مشکل بنا دی بارہ برس کی عمر میں انہوں نے اپنا گھر چھوڑا اور تکریت میں اپنے ایک چچا کے ساتھ رہنے لگے اپنے لڑکپن میں صدام حسین حکومت مخالف مظاہروں میں خاصے سرگرم رہے۔ مگر عراقیوں کی طرح وہ برطانوی نو آبادیاتی حکومت اور امیر جاگیرداروں کے خلاف ہوتے گئے۔ 1958ء کے انقلاب میں عراق میں برطانیہ حامی بادشاہت کا خاتمہ کے بعد ملک میں پرتشدد بحرانی دور کا آغاز ہوا صدام حسین کے لیے 60ء کی دہائی اہم ترین ثابت ہوئی عراقی بعث پارٹی کے رکن کی حیثیت سے صدام پارٹی کے ایک سینئر رہنما اور ان کے چچا کے قریبی رشتہ دار احمو حسن الباقر کے منظور نظر اور قریبی ساتھی بننے میں کامیاب ہو گئے۔صدام اس وقت نہ کوئی افسر تھے اور نہ فوج کا حصہ لیکن مورخ کہتے ہیں کہ احمو حسن باقر کے لیے وہ خاصے مفید کام انجام دیا کرتے تھے۔

1968ء میں بعث پارٹی اقتدار میں آئی اور احموحسن الباقر ملک کے نئے صدر بن گئے صدام حسین اسی دور میں احموحسن کے دست راست رہے صدر باقر نے عراقی تیل کی صنعت حکومتی کنٹرول میں لے لی عراقی خزانے پر دباؤ بڑھنے لگا اور حکومت نے ملک میں ترقی کے نئے دور کا آغاز کیا دیہاتوں میں بجلی پہنچنے لگی سڑکیں اور اسکول بننے لگے اسی دوران صدام حسین نے احمو آلباباقر سے زبردستی استعفٰی دلوا دیا اور خود صدر بن گئے سازشیوں کو کچلنے کے بعد صدام کی شخصیت حاوی ہوتی گئی اور وہ خود کو عرب دنیا کا رہنما اور تاریخ میں اپنے آپ کو صلاح الدین ایوبی جیسے سپہ سالار کے برابر سمجھتے تھے کیونکہ صلاح الدین بھی تکریت میں پیدا ہوئے۔ صدر صدام کے جارحانہ عزائم کی پہلی مثال جلد ہی 1980ء میں اس وقت سامنے آئی جب ان کی فوجوں نے ہمسایہ ملک ایران میں پیش قدمی کی صدر صدام کی توقعات کے برعکس یہ جنگ انہیں بڑی مہنگی پڑی 8 برس جاری رہنے والی اس جنگ میں 10 لاکھ افراد ہلاک ہوئے جسکے بعد انہوں نے کویت پر عراقی تیل چوری کرنے کا الزام عائد کیا اور مطلوبہ معاوضہ نہ ملنے پر اگست 1990ء میں عراقی فوجیں کویت میں داخل کر دیں۔

صدر صدام کو یہ فوجی اقدام بھی مہنگا پڑا ان کو توقع تھی کہ بڑی طاقتیں جنہوں نے ایران کے خلاف ان کی جنگ میں عراق کا بھر پور ساتھ دیا ہتھیار اور وسائل فراہم کیے اب اگر وہ طاقتیں کھل کر حمایت نہ بھی کریں تو کم از کم مخالفت بھی نہیں کریں گی لیکن حالات بدل چکے تھے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خلیج میں اپنے مفادات یعنی تیل اور اسرائیل کی حفاظت ہر قیمت پر ضروری تھی اسی لیے امریکی قیادت میں ’آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم‘ کے تحت امریکا اور برطانیہ نے عراق پر جنگ مسلط کر دی۔ 11 ستمبر کے واقعے کے بعد امریکا مسلسل اس بات پر مصر رہا کہ عراق کے پاس وسیع تباہی کے ہتھیار ہیں اور برطانیہ کا کہنا تھا کہ ان ہتھیاروں کو صرف 45منٹ میں قابلِ استعمال بنایا جا سکتا ہے اس کے علاوہ عراق پر جوہری ہتھیار بنانے اور حاصل کرنے کا الزام بھی لگا اس لیے عراق پر فروری 2003ء میں امریکا نے دوبارہ حملہ کر دیا عراق پر امریکی حملے اور قبضے کے بعد سے اب تک ان میں سے کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ عراق امریکی اور برطانوی گٹھ جوڑ میں شامل ملکوں کو اگرچہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی حمایت حاصل نہیں تھی اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے امریکی برطانوی گٹھ جوڑ سے کیے جانے والے دعووں کی تائید بھی نہیں کی تھی۔

تاہم اس گٹھ جوڑ سے حملہ کر دیا گیا اپریل میں سقوط بغداد کے بعد صدر صدام حسین روپوش ہو گئے 22 جولائی 2003ء کو معزول صدر صدام کے دونوں بیٹوں کو عودے اور قوصے حسین کو عراق کے شمالی شہر موصل میں حملہ کر کے قتل کر دیا گیا۔ 14 دسمبر 2003ء کو عراق کے شہر تکریت کے قریب سے صدام حسین کو گرفتار کیا گیا امریکا کی نگرانی میں مقدمہ چلایا اور 3 نومبر کو صدام حسین کو 148 کردوں کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی اس فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے 30 دسمبر 2006ء بمطابق 10 ذوالحجہ 1427ھ (عید الاضحی کے دن) صدر صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی عراق کی اعلیٰ عدالت نے دجیل میں 1982 میں 148 افراد کی ہلاکت کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی تھی ان افراد کو صدام حسین پر قاتلانہ حملے کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد ہلاک کر دیا گیا تھا۔

صدام حسین کے ساتھ ان کے سوتیلے بھائی اور انٹیلی جنس سروس کے سابق سربراہ برزان التکریت اورسابق چیف جسٹس کو بھی پھانسی دیدی گئی صدام کے مقدمے کی سماعت کے دوران ان کے تین وکیلوں کو قتل کر دیا گیاتھا صدام حسین جب تک پاور میں تھے اس وقت تک انکے حق میں جلسے جلوس اور ریلیاں بھی عروج پر تھیں مگر جیسے ہی وہ تختہ دار تک پہنچے سبھی خاموش ہوگئے اسی طرح بھٹو کو بھی قدم بڑھانے کا مشورہ دینے والے ضیاء الحق کے ساتھی بن گئے تھے اور آجکل میاں نواز شریف کو بھی قدم بڑھاؤ کے مشورے دیے جارہے ہیں کیونکہ انہوں نے لندن سے اب نکلنا تو ہے ہی اور انکے سبھی پیارے انہیں پاکستان کی طرف قدم بڑھانے کا مشورہ دے رہے ہیں جہاں سے وہ پہلے ہی بڑی مشکل سے بیماری کا بہانہ بنا کرنکلے تھے اگر تو انہیں کسی ملک نے قبول نہ کیا تو پھر انہیں اپنے ہی ملک قدم بڑھانا پڑیں گے جہاں کی جیلیں انکا انتظار کررہی ہیں رہی بات پنجاب کی جہاں بزدار سرکار بہت اچھے انتظامات کے ساتھ انکا استقبال کرنے کو تیار بیٹھی ہے اس لیے میاں صاحب کو کسی بھی قسم کا قدم بڑھانے سے پہلے صدام حسین اور ذوالفقار علی بھٹو کے قدموں کو دیکھ لینے چاہیے کہ وہ نشانات کہاں جاکر ختم ہوئے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر