اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حکومتی امیدواروں نے اپوزیشن امیدواروں کو شکست دے دی۔
حکومت کے نامزد کردہ صادق سنجرانی ایک بار پھر چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے جبکہ اپوزیشن امیدوار یوسف رضا گیلانی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں مرزا محمد آفریدی نے کامیابی حاصل کی جبکہ مولانا عبدالغفور حیدری کو شکست ہوئی۔
سینیٹ کا اجلاس مظفر حسین شاہ کی سربراہی میں ہوا جس میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کی گئی اور اس ضمن میں جے یو آئی کے رہنما اور پی ڈی ایم کی طرف سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے امیدوار عبدالغفور حیدری نے پہلا ووٹ کاسٹ کیا۔
ارکان کو حرف تہجی کے اعتبار سے ووٹنگ کے لیے بلایا گیا۔
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے 98 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا جبکہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق خان نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا جس کے بعد ان کا 5 بجے تک انتظار کیا گیا۔
ووٹنگ کے عمل کے دوران جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کا نام دو مرتبہ پکارا گیا لیکن وہ ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں آئے۔
ووٹنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد گنتی ہوئی اور پھر پریذائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ نے نتائج کا اعلان کیا۔
نتائج کے مطابق چیئرمین سینیٹ کےا نتخاب میں صادق سنجرانی کو 48 اور یوسف رضا گیلانی کو 42 ووٹ ملے جبکہ 8 ووٹ مسترد ہوئے۔ 7 ووٹرز نے یوسف رضا گیلانی کے نام کے اوپر مہر لگائی جس کی وجہ سے یہ ووٹ مسترد ہوئے جبکہ ایک ووٹر نے دونوں امیدواروں کے آگے مہر لگائی۔
چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے بعد صادق سنجرانی نے عہدے کا حلف اٹھالیا۔
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد صادق سنجرانی نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے کیلئے انتخابی عمل شروع کرایا۔
ڈپٹی چیئرمین شپ کیلئے حکومت کی جانب سے مرزا محمد آفریدی اور اپوزیشن کی جانب سے عبدالغفور حیدری کے درمیان مقابلہ تھا۔
پولنگ کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے نتائج کا اعلان کیا جس کے مطابق حکومتی امیدوار مرزا محمد آفریدی نے 54 اور پی ڈی ایم کے امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری نے 44 ووٹ حاصل کیے۔
یوں اکثریتی ووٹ حاصل کرنے کی بنا پر مرزا محمد آفریدی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے اور صادق سنجرانی نے ان سے عہدے کا حلف لیا۔
اس سے قبل سینیٹ میں چیئرمین کا عہدہ حکومتی حمایت یافتہ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا کے پاس تھا۔
اجلاس کے آغاز پر پریزائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ نے اراکین کو ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار بتایا اور غلطی کی صورت میں ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے سیکرٹری سینیٹ کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی۔
پریزائیڈنگ افسر نے کہا کہ موبائل فون، کیمرہ اور کوئی بھی الیکٹرانک ڈیوائس کے ساتھ پولنگ بوتھ میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔
چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے کیا گیا۔
اپوزیشن اتحاد کے پاس 51 ارکان کی اکثریت جب کہ حکومتی اتحاد کے پاس 47 اراکین کی حمایت تھی اور جماعت اسلامی نے کسی کو بھی ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
حکومت نے صادق سنجرانی کے لیے محسن عزیز کو پولنگ ایجنٹ مقرر کیا تھا جب کہ یوسف رضا گیلانی نے فاروق ایچ نائیک اور عبدالغفور حیدری نے کامران مرتضیٰ کو پولنگ ایجنٹ مقرر کیا تھا۔
سینیٹ کے 100 کے ایوان میں 98 سینیٹرز نے حق رائے دہی میں حصہ لیا، سابق وزیر خزانہ اور (ن) لیگ کے رہنما اسحاق ڈار سینیٹ کا حلف نہ اٹھانے کے باعث اجلاس میں شریک نہیں ہوسکتے جب کہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
اس سے قبل سینیٹ اجلاس کا آغاز صبح 10 بجے ہوا جس میں پریزائیڈنگ آفیسر مظفر حسین شاہ نے 48 نومنتخب اراکین سینیٹ سے حلف لیا جس کے بعد تمام نو منتخب سینیٹرز نے رول آف ممبر پر دستخط کیے جس کے بعد اجلاس 3 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے قبل پولنگ کی جگہ کیمرے لگے ہونے کا الزام سامنے آیا۔
پی پی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نےد عویٰ کیا کہ سینیٹ الیکشن میں پولنگ بوتھ پر کیمرہ لگا ہوا ہے جب کہ انہوں نے اس حوالے سے ایک تصویر بھی ٹوئٹر پر شیئر کی۔
اپوزیشن نے پولنگ بوتھ میں کیمرہ نکلنے پر پولنگ بوتھ کو ہی اکھاڑ دیا اور شدید احتجاج کیا۔