تحریر: انجینئر افتخار چودھری لگتا ہے صادق خان کی جیت سے نون لگ کو ایک سہارا سا مل گیا ہے۔ ایک ڈرائیور کا بیٹا لندن کا میئر بنا ہے۔ حب علی تو کم بغض معاویہ دکھائی دیتا ہے۔ اگر آنکھیں بند کر کے اس کی تقریر سنو تو لگتا ہے عمران خان کا کوئی چاہنے والا بات کر رہا ہے اس نے صاف ہوا، اچھے ہسپتال، بہتر تنخوا کمیونٹی ویلفیئر کے لئے صحت کی سہولتیں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ میں اسے نون لیگی مان لیتا اگر وہ کسی موٹر وے پل کی بات کرتا ڈرائیور کے بیٹے نے دیار فرنگ میں رہ کر اپنے اس باپ کو سلام پیش کیا جس نے مدت ہوئی پاکستان چھوڑا اور وہیں کا ہو کر رہ گیا۔وہاں کا ہو کر رہنے کی بڑی قیمت ہوتی ہے۔
میں ایک مدت سعودی عرب رہا وہاں انگلینڈ سے آئے ہوئے لوگ مجھے ملتے ان سے گپ شپ ہوتی وہ وہاں کی سہولیات کی بات کرتے مساوی سلوک کا ذکر ہوتا۔میرے اپنے وہاں بہت ہیں۔میں نے ان سے ایک سوال کیا جس کا جواب کسی کے پاس نہ تھا اور وہ تھا کہ جب بچیاں جوان ہوں تو آپ پاکستان کیوں بھاگتے ہیں؟صادق خان بھی جب مجھے ملے گا تو ان سے سوال ضرور کروں گا کہ لندن کی ان خوبصورت فضائوں میں بسنے والوں کو یہ سہولت بھی ضرور دینا کہ وہ دیس کو مکمل بھول جائیں۔میں ایک سنکی سا آدمی ہوں مجھے ہر بات میں کھٹکا سا لگا رہتا ہے جب بھی کوئی مسلمان یا پاکستانی کسی بھی اچھی اور بڑی پوسٹ پر پہنچتا ہے تو اس کے پیچھے کچھ ایسے عوامل کار فرما ہوتے ہیں جو معنی رکھتے ہیں۔
عالمی ایٹمی ایجینسی کا سربراہ ایک مصری محمد البرادی مسلمان بنے انہوں نے عراق پر حملے کی راہ ہموار کی۔ملالہ کو اس دنیا نے ایک دن میں اتنا اوپر کیا کہ میں حیران رہ گیا اس پنڈروہ بکس سے اس کا وہ باپ نکلا جس نے پاک آرمی کی دنیا بھر میں تذلیل کروائی۔عبید شرمین نے بڑے ایوارڈ جیتے آسکر ایوارڈ جو دنیائے فلم کا اعلی ترین ایوارڈ ہے اسے دیکھا تو پتہ چلا پاکستانی معاشرے کا گندہ پہلو دکھایا گیا۔حالنکہ خود امریکہ میں عورتوں پر تیزاب پھینکنے کے واقعات صومالیہ اور ایتھوپیا سے بھی زیادہ ہیں۔عبید شرمین کو سلام پیش کرنے میں یہ قوم آگے آگے رہی ۔میں کسی اور کی کیا بات کروں خود میرے سیاسی ساتھی میری اس سوچ کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ خوامخواہ ہر بات میںکیڑے نکالتے ہیں۔
PML N
صادق خان تیری جیت سے کم از کم مسلم لیگ نون کو لیکس سے بچائو کے لئے ایک حفاظتی پشتہ مل گیا جس سے گیلی ہوئی پتلونیں خوشی سے اچھلنے کے قابل ہوئی ہیں۔ ہم مسلمان بھی بڑے خوش فہم ہیں بارک اوبامہ جیتے تو حسین نام کے صدقے واری جاتے ہوئے دھمالیں ڈالنے لگے۔ادھر گجرانوالہ میں جہاں ان کی ماں کام کیا کرتی تھی اس جگہ کی زیارت ہونے لگی۔لگتا تھا گجرانوالہ کا نواسہ جیت گیا ہے۔لیکن جب ڈرون حملوں نے پہلے سے زیادہ شدت اختیار کی تو بارک حسین اوبامہ کو اوبامہ کو چڑے کھانے والوں نے الامہ دیا کہ وہ بے گناہ لوگوں کو پھینٹی لگا رہا ہے۔
برادر تزئین اختر بھی بڑے خوش تھے میں نے انہیں کہا کہ نمک منڈی میں لوہا بھی چلا جائے تو وہ نمک ہو جاتا ہے۔اب صادق خان کے چرچے ہیں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ اصل ہے کیا۔خبر آ بھی گئی کے موصوف نے اپنی انتحابی مہم شراب خانے سے شروع کی۔عراق پر حملے کی راہ ہموار کرنے میں پر جوش کردار ادا کیا۔گویا ملینز لوگوں کی شہادتوں کے پیچھے موصوف کی آواز بھی تھی۔GAY MARRIAGE کی حمائت کرتے ہیں۔گویا موصوف اسلام کی
بنیادی خصوصیات کے کھلے مخالف ہیں۔پاکستانیوں میں صرف مسلم لیگیوں کو ہی نہیں خوشی ہوئی پورا عالم مستی میں ہے۔لندن کے میئر صاحب منتحب ہو کر اپنی تقریر میں پاکستان کو قدرے مختلف انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا اور ابا حضور کو خراج تحسین پیش کیا کہ وہ ایک اچھے ملک میں آئے یعنی گندے ملک کو خیر باد کہا۔میں قدرے مختلف سوچ کا حامل ہوں میں تو اس پاکستانی کو سلام پیش کروں گا جو وہاں گیا تعلیم حاصل کی اور اپنے لوگوں کو مشکل سے نکالنے واپس ان کے درمیان آیا مین صرف عمران خان کی بات نہیں کروں گا اس فہرست میں حضرت علامہ اقبال،چودھری رحمت علی اور خودقائد اعظم شامل تھے۔یاد رکھئے اس ملک میں مچھر اس وقت بھی تھے بلکہ زیادہ تھے بجلی کا جانا کہاں بجلی تھی ہی نہیں۔
Quied e Azam and Allama Iqbal
برصغیر کی نالیاں آج سے کہیں گندی تھیں مگر وہ لوگ پلٹے اور انہوں ہندو انگریز کانگریسی ملائوں سے چومکھی لڑائی لڑی اور اپنے لوگوں کو آزادی سے ہمکنار کیا۔یہ جعلی مسلم لیگی مئے فیئر کے مہنگے فلیٹوں میں تو رہتے ہیں لیکن انہوں اصلی لیڈروں کی پہچان ہی کیا ہے۔علامہ اقبال یورپ سے آئے اور ان کے عظیم کارناموں میں دو بڑے کارنامے ہیں ایک حضرت قائد اعظم کو بر صغیر بلوایا دوسرا سید مودودی کو پٹھانکوٹ سے لاہور۔
صادق تیری جیت سے بلیوں اچھلنے والے جان لیں کہ اگر انہوں نے اس معاشرے کو لندن جیسا ماحول دیا ہوتا تو صادق خان کا ابا یہاں سے نہ جاتا۔دنیا کے کسی کونے میں چلے جائو پاکستانی در بدر پھرتے نظر آتے ہیں۔کسی کی لاش فریزروں میں پڑی ہے اس لئے کہ کفیل موجود نہیں ہے۔مشینوںکی طرح کام کرنے والے پاکستانی پچاس پلس اور منفی درجوں میں دڑبہ نما گھروں میں دبکے ہوئے اپنی زندگی کے حسین دن تباہ کر رہے ہیں۔انہیں پرائے ٹکڑوں پر ڈالنے والے کون ہیں یہ نون لیگئے اور پپلئے ہیں ان کے دور میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ دربدر ہوئے۔میں سعودی عرب رہا مجھے اس دن سب سے زیادہ غصہ آیا جب ایک بدو نے گالی دیتے ہوئے کہا لعن علی بلدک (لعنت تیرے وطن پر) مت سہل اسے جانو سات بار حمیت کو دانتوں میں دبا کر پردیس کٹتا ہے۔۔۔۔
کے زندہ رہنا پڑتا ہے سعودی عرب ہو یا لندن فرینکفرٹ۔زائر حرم یا زائر مکاںبن کے جائو وہ ہی کافی ہے۔(جس کی مذہبی حمیت اسے اکساتی ہے تو بن لادن کے کیمپوں میں پڑے ہزاروں پاکستانیوں کو دیکھ لیں) بیرون ملک پاکستانیو پر یہ احسان کرو کہ وہ ڈرائیور بن کے پردیس میں ٹھوکریں نہ کھائیں اور اپنی بہترین اولادوں کو پرائے دیسوں کا لیڈر نہ دیں۔صادق تیری جیت سے بے حسوں کی آنکھ کھلنی چاہئے۔عمران خان بننے کے لئے رحمت علی اقبال اور محمد علی کا حوصلہ چاہئے جو رائے ونڈ میں نہیں بنی گالہ میں ہے۔