اصطلاح میں انتہا پسندوں سے مراد وہ گروہ یا وہ لوگ ہیں جواپنے عقائد و نظریات پر نہ صرف یقین رکھتے ہوں بلکہ اس اندھے اعتماد کیلئے کسی دلیل کے محتاج نہ ہوں۔ کسی بھی معاشرے میں مذہبی انتہاپسندوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے مذہبی عقائدو نظریات پر یقینِ کامل کیلئے کسی عقلی و ٹھوس دلیل کے تابع نہ ہوں۔ ایسے لوگوں کی اسی شدت پسند سوچ کی بناء پر انکو کسی بھی معاشرے میںملک و ملت کیلئے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔جسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انکے لئے انکے عقائد و نظریات ہی انکی اوالین ترجیح ہوتے ہیں ۔اوریہ ایسے ضدی قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے عقائد و نظریات کے تحفظ کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے۔
بد قسمتی سے دورِ حاضر میںہمارہ معاشرہ بھی ایسے شدت پسندوں سے بھرا پڑا ہے جو معاشرے میں اپنے نظریات کے فروغ اور اپنے مقاصد کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں ۔ایسے عناصر کو مذہبی، معاشر تی اور انفرادی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا تا رہا ہے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے مگر افسوس کچھ خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ عرصہ دراز سے حکومتی، قومی و معاشرتی سطح پر ایسے ملک دشمن عناصر سے نمٹنے کیلئے کوششیں بھی جاری ہیں جوقابلِ ستائش ہیں۔
لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ابھی ہم نے پوری طرح سے مذہبی انتہا پسندی پر قابو نہیں پایا کہ ہمیں معاشرتی انتہا پسندوں کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔معاشرتی انتہا پسندوں سے مراد وہ لو گ ہیں جو معاشرتی سطح پر اپنے معاشرتی حقوق و نظریات کے فروغ کیلئے کسی خطرناک حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اور عقلِ سلیم بھی یہ نظارہ دئکھ کر دھنگ رہ جاتی ہے کہ جو لوگ کل تک مذہبی انتہاء پسندی کی نہ صرف سختی سے مخالفت کر رہے تھے بلکہ اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے سر گرمِ عمل بھی تھے، آج وہی لوگ معاشرتی انتہاء پسندی کو پروان چڑہا رہے ہیں۔
مذہبی منافرت کے بعد اب بعض NGOs کی جانب سے ایسے لوگ متعارف کرایا جانا جو بالکل مذہبی انتہاء پسندوں کی طرح نہ صرف سوچ رکھتے ہیں بلکہ اپنے نظریات میں اس درجہ حد تک سخت ہیں کہ کسی دوسرے کو سننے کیلئے تیا ر نہیں ایک افسوسناک عمل ہے اور خاص طور پر ایسے رویوں کو اس وقت پروان چڑہانا کہ جب وطنِ عزیز کو کئی مسائل کا سامنا ہے در اصل ایک لمحہء فکریہ ہے۔یہ وہ نام نہاد پڑہا لکھا طبقہ جو مہذب ہونے کا دعویدار تو ضرور ہے
Ethics
مگر شاید تہذیب وتمدن، روایات اور اخلاقیات سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں رہا۔ مثبت سوچ رکھنے کا دعویدارایہ طبقہ انتقام میں اتنا آگے نکل چکا ہے کہ جن حقوق کے تحفظ کی کل تک یہ بات کرتا تھا آ ج خود ہی ان حقوق کو پامال کئے جا رہا ہے۔ عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ اپنے مئوقف کی تردید سننا تو دور کی بات کسی دوسرے کا جائز مئو قف بھی سن نے کو تیار نہیں۔ منفی رویہ ایسا کہ تصفیہ طلب مسائل کے حل کیلئے گفت و شنید تو دور کی بات، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار نہیں۔اور ستم ظریفی یہ کہ ان سب حرکات کے باوجود خود کو راہِ راست پر تصور کرتے ہیں۔
بے ِحسی کا یہ عالم ہے کہ یہ دونو ں اطراف ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ملک و ملت کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے اپنی تما تر قوت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف کر رہے ہیں۔شرمناک بات یہ کہ اپنے ان مکروہ رویوں کے باوجود معاشرتی اصلاح کے دعویدار ہیں۔ اور اوپر سے بد قسمتی یہ کہ اگر انہیں انکی حرکات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے متعلق حقائق پر مبنی سوال کئے جائیں تو یہ لوگ ان سوالات کے جوابات دینے کو تیار نہیں کیونکہ ایسے سوالات سے شاید ان لوگوں کے مفادات پر کئی سوالیہ نشان اٹھ جاتے ہیں جنکے جوابات ان کے پاس نہیں۔
عین ممکن ہے کہ انکی انہی حرکات کی آڑ میں پاکستان مخالف قوتوں نے اپنے مفادا ت کے حصول کو ممکن بنا نے میں کامیاب ہو جائیں۔اور اگر ایسا ہو گیا تو انکو تو شاید انکی فنڈنگ ملتی رہے گی مگر نقصان صرف اور صرف اس پاک دھرتی کا ہو گا۔اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو انکو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ملک و ملت انکو کبھی معاف نہیں کریں گے۔
اور جہاں تک اس معاشرتی اصلاح کا تعلق ہے جس کے یہ دعویدار ہیں تو یقینا یہ لوگ بھول رہے ہیں کہ معاشرتی اصلاح کا بیڑا اٹھانے کیلئے پہلیانفرادی سطح پر اصلاح ضروری ہوتی ہے۔ کیونکہ انفرادی اصلاح کے بغیر معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں۔ کیونکہ یہ ایک مسلمہ اصول ے کہ جو معاشرہ انفرادی سطح پر بگاڑ کا شکار ہو ایسے معاشرے کی اصلاح حکومت کے بس کی بات نہیں ہوتی۔