تحریر: سلیم سرمد علوم وآگہی اور زبانوں کے ارتقاء اور پھیلائو سے قبل ، جب انسان تمدنی نہیں تھا، اپنی ضرورتوں کے پیشِ نظر اپنا مقصد بیان کرنے،اپنی بات دوسروں تک پہنچانے، سمجھانے،اور اپنے محسوسات و جذبات کے اظہار کے لیے مختلف طریقوں ،مثلاََاعضاء کی حرکات و سکنات، مخصوص آوازوں اور اشاروں کنایوں سے کام لیتا تھا۔جس سے کسی بات کے اظہار اور ابلاغ میںکافی دِقّت اور وقت صرف ہوتا تھا۔
جوں جوں انسان شعور وآگہی اور علم حاصل کرتا گیااس پر کائنات کے اسرار و رموز کھلنے لگے،وہ تمدنی ہوتا چلا گیا،بہتر رہنے، کھانے، پہننے،بہتر سوچنے سمجھنے اور بہتر بولنے لگا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس اور علوم نے مزید ترقی کی تو زندگی سہل ہوتی گئی،انسان کے فکری پہلو روشن ہوئے تو اجتماعی سوچ پروان چڑھی جس سے اجتماعی معاشرے کی تشکیل ہوئی،اظہار ،ابلاغ اور روابط کے ذرائع وسیع ہوتے چلے گئے اور دنیا گلوبل ویلج بن گئی۔
لیکن آج اتنی جدت،آزادی اور انسان کے شعوری ارتقاء کے باوجود کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جو انتہائی تلخ ہیں،کچھ مسائل ایسے ہیں جن پر تاحال تاریخ کی گرد پڑی ہوئی ہے،اظہارِ رائے کے معاملے میںہم آج بھی کسی حد تک انسانی تاریخ کے ابتدائی عہد میں ہیں۔اس آزاد ، اور مہذب معاشرے میںسچ کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔پیار محبت کے جذبات کا اظہار معیوب اور گناہ سمجھا جاتا ہے ،زمانے کی تنگ نظری ، فرسودہ روایات اورخودساختہ حدود قیود کی وجہ سے ہم اپنی خواہشات کو تکمیل کا پیرہن نہیں پہنا سکتے۔اپنے محسوسات وجذبات کے اظہار میں ایک کرب،ایک تڑپ اور ایک گھٹن محسوس کرتے ہیں۔اور یہی کرب یہی گھٹن یہی تڑپ اور سوز و گداز مجھے ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی کتاب”پھول خوشبو اور تارہ ” میں بکثرت نظرآئے۔
Dr.Najma Shaheen
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ،جو کسی تعارف اور تشہیرکی قطعاَ محتاج نہیں،مستقل مزاج،باوقارسنجیدہ شخصیت اور ایک آفاقی شاعرہ،جن کا شمار ڈیرہ غازیخان ہی نہیںبلکہ پاکستان کے نمایاں شعراء اور شاعرات میں ہوتا ہے ،ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ جو ڈیرہ غازیخان کی پہچان تو ہیں ہی مگراسکے علاوہ انھیں عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کااعزاز بھی حاصل ہے۔ایک اوسط عرصے پر محیط ان کاکامیاب شعری سفر ان کے بھرپور فنی و فکری صلاحیتوں کے حامل ہونے کا ثبوت ہے،جس میں وہ مستقل مزاجی ،محنت ،لگن اور جستجو کے دم پر اپنی نئی خوبصورت تخلیق منظرِعام پر لے آئی ہیں جو لائقِ صد تحسین ہے۔”پھول خوشبو اور تارہ ”ڈاکٹر صاحبہ کی چوتھی کاوش ہے،اس سے قبل جو ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے تین مجموعے آئے تھے مجھے ان کا مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا،شدتِ اشتیاق اور انتظار کے بعدان کی شہ پارہ تخلیق”پھول خوشبو اور تارہ” دسترس میں آئی ”مگر تشنگی باقی رہی ”۔پھول خوشبو اور تارہ میں وہ تمام موضوعات اور مسائل بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں جو ہمارے صنفی امتیاز برتنے والے معاشرے میںایک عورت کو در پیش ہوتے ہیں،کسی حبس زدہ ماحول میں ایک محبوس روح،کربِ ہجر اور درد کے لامتناہی سلسلے،اک خلش اک گھٹن،معاشرے کی قبیح اور فرسودہ روایات میں الجھی زندگی کی ڈور۔
ان کی شاعری میں عشق و محبت کے جذبات اور غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ غمِ دوراں کا تذکرہ بھی پایا جاتا ہے،ہجر و فراق کا مختلف کیفیات میں اظہار،حسرت ِوصالِ یار،جلتے بجھتے آس امید کے دیے تو کہیں آنکھوں میںچبھتی ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں۔ مختصر یہ کہ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری میں وہ تمام موضوعات وہ تمام پہلو موجود ہیںجو ایک حساس انسان کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری کا اسلوب روایت و جدت سے مزین،سادہ عام فہم اور خوبصورت الفاظ کا پیرہن ،مرصع مترنم شعریت اور معنویت سے بھر پور لمبی بحور کی غزلیں اور نظموں کی جدت انکے اسلوب کی خاصیت ہیں۔ ان کے کلام میں ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری میں مشکل پسندی بالکل نہیں،شعر فوراََ ہی قاری اور سامع کے ذہن وقلب میں اتر جاتا ہے جس سے قاری اور سامع بلا تامل شعر کی معنویت کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔
نسائی جذبوں کی ترجمان شاعرہ کا یہ اعجاز ہے کے اپنے فن میں معراج کی بدولت ان کی شاعری قیاس آرائی کے بجائے حقائق کے قریب ترین اور حالات و واقعات کی مکمل عکاس ہے۔ شعر دیکھئے کہ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ حالات و واقعات کی سختیوں اور زمانے کی ستم ظریفی کو کتنی بردباری اور تحمل کے ساتھ جھیلتی آرہی ہیں: میں اشک آنکھوں کے پی رہی ہوں ،میں وار سہہ سہہ کے جی رہی ہوں، دعا کرو بس رہے ابد تک مری یہ آہ و فغاں سلامت۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ ،استعارے،کنائے،تشبیہات اور تلمیحات کے استعمال کا فن بخوبی جانتی ہیں،ان کی اکثر کتابوں کے نام بھی استعاراتی ہیں،میں انھیں استعاراتی شاعرہ کا خطاب دیناپسند کروںگا،وہ اپنے مدعا،اپنی بات اور اپنے اظہار کے لئے استعاروں کا استعمال کر کے کمال مہارت کے ساتھ اپنے دل کی بات کہہ جاتی ہیں مثلاََ: چلتے چلتے وصل اچانک ہجر کی شام میں ڈھل جاتا ہے، تم کیا جانو کیا ہوتا ہے بات سے نکلی بات کا دکھ۔
Desires
آرام و آسائش کا طلبگار اور دائمی سکون کا متلاشی انسان اپنی زندگی کسی نہ کسی مقصد،خواہشات کی تکمیل اور وابستہ امیدوں کے سہارے بسر کرتا ہے، ان تمام جملہ عناصر کے حصول کا مقصد ذہنی و قلبی سکون ہی ہوتا ہے۔اگر انسان کو مقصدِ حیات حاصل ہوجائے،خواہشیں پوری ہو جائیں ،خوابوں کو تعبیر مل جائے تو انسان کی ویران زندگی میں بہار آ جاتی ہے۔بے پناہ مسرت کا احساس ہوتا ہے،ذہنی و قلبی اور روحانی سکون حاصل ہوتا ہے۔لیکن اگر یہ تمام رعنائیاں، رنگینیاں اور خوشیاں اچانک چھن جائیں توزندگی بے نور اور پھیکی پھیکی پڑ جاتی ہے۔یہی کیفیت اگر عشق اور محبت میں ہو یعنی اگر حاصلِ مقصد چھن جائے،وصالِ یار فراقِ یار میں بدل جائے،خوشیوں کی جگہ شقی القلب غم لے لیںتو یاس و ناامیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھاجاتے ہیں ۔انسان آسمان کی رفعتوں سے زمین کے پاتال میں جا گرتا ہے،کائنات بے رنگ اور دل کی دنیا کسی اجڑے ہوئے چمن کی طرح لگتی ہے۔زندگی کے لمحات بے کیف لگنے لگتے ہیںاور انسان کو اپنی ہستی بے معنی اور اپنی ذات کی بے ثباتی کا احساس ہوتا ہے۔ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ پہ اس طرح کے حالات کس طرح سے اثر پذیر ہوئے آئیے دیکھتے ہیں:
دل کو ذر ا قرار تھا وہ بھی نہیں رہا آنکھوں کو انتظار تھا وہ بھی نہیں رہا وہ ساتھ تھا تو ساتھ میں میری بھی ذات تھی میرا کہیں شمار تھا ، وہ بھی نہیں رہا اس سے ہوئے جدا تو پھر خو د کو بھی کھو دیا خود پر جو اعتبار تھا وہ بھی نہیں رہا شاعرچونکہ معاشرے کا حساس طبقہ ہوتا ہے اسی لیے ایک شاعر کا بنیادی ذریعہء اظہار شاعری ہی ہوتا ہے ،شاعر حالات و واقعات کی عکاسی،اپنے مشاہدات و تجربات کااظہارباآسانی اور خوبصورتی کے ساتھ شعر کی صورت میںبہترطور پرکرسکتا ہے اوراپنے محسوسات و جذبات کی ترجمانی بھی شعر کی صورت میں کرنا پسند کرتا ہے،۔اپنی اس صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے شاعر اپنی شاعری میں نا صر ف اپنی مسرت و شادمانی ، کرب اور دکھ کا اظہار فرماتے ہیں بلکہ اسے مزاحمت اور شکایت کے ساتھ ساتھ مختلف کیفیات میں بطور ہتھیاربھی استعمال کرتے ہیں،مگر کہیں کہیں یہ فن بھی کارگرثابت نہیں ہوتا،مثلاََڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کا ایک شعر دیکھے:
٭کل سوچا تھا شعر میں تجھ سے سارے شکوے کر ڈالوں گی آج غزل کہنے بیٹھی تو کیوں اتنی دشواری سائیں بعض اوقات ہماری زندگی میںہمارے معاشرے یا اپنوں کی طرف سے اس طرح کے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ ہم ہر جگہ خود کو محبوس تصور کرتے ہیں۔ہماری شخصی آزادی سلب کر لی جاتی ہے،سانسوں تک پر پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں،ہم اپنے خیر خواہوں کے بیچ بھی خوف اور گھٹن کی زندگی جیتے ہیں۔اس طرح کے کرب کا اظہار ایک شاعرہ(ایک عورت) کتنی خوبصورتی کے ساتھ کر سکتی ہو گی جس نے اپنی زندگی کو دشت سے تشبیہ دی ہو ،اور جس کا زاد ِ سفر بہتے اشک اور آہیں ہوں: دشت میں زادِ سفر اتنا ہی تھا میرے لئے اشک تھے اورساتھ تھا بس ،میری آہوں کا حصار سانس لینے سے بھی اکثر روک دیتے ہیں ہمیں جان لیوا ہو چلا ہے خیر خواہوں کا حصار
کہتے ہیں اگر انسان کے اندر کا موسم اچھا اور خوشگوار ہو تو باہر کے موسم اور مناظر بھی بھلے لگتے ہیں۔ ہر طرف رنگینی اور رعنائی نظر آتی ہے ، مسرت و شادمانی کے خوشگوار اثرات انسان کے مزاج، بول چال،روحانی اور جسمانی صحت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں،اور دیکھنے والے با آسانی ہماری اندرونی کیفیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔اس کے بر عکس اگر انسان یاس و غم کی کیفیت میں ہو تو اس کے منفی اورنا خوشگوار اثرات بھی ہمارے مزاج اور صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔جب انسان دکھوں اور مصائب میں گھرا ہوتو آنکھوںمیں ہزاروں سوالات کے ساتھ چہرے پر مایوسی ،شب کے اندھیرے کی طرح پھیل جاتی ہے اور چشم ِ تر کو ہر سمت پیاس کا صحرا دکھائی دیتا ہے: میرے عارض جس سے دمکے تھے کبھی ایک دن وہ آرزو بھی مر گئی ہر طرف اک پیاس کا صحرا تھا بس جس طرف بھی میری چشم ِ تر گئی ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے چندمنفرد خوبصورت اشعار دیکھیے۔ مجھ کو مرے وجود میں بس تُو ہی تُو ملا ایسے تری مہک سے سنواری گئی ہوں میں
افسوس مجھ کو اس نے اتار ا ہے گور میں جس کے لیے فلک سے اتاری گئی ہوں میں
دکھ سے نڈھال ہو کے جب روتی ہیں بیٹیاں پھر ان کے لیکھ دیکھ کے ہنستی ہے زندگی
جرم بس یہ تھا کہ منزل کا تعین کر لیا پھر سد ا رہنا پڑا ہم کو سفر کے درمیاں
میں اس مختصر سے مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری میں بھر پور فکری تنوع اور شعوری بالیدگی ہے۔ان کی شاعر ی میں شعری محاسن بڑی عمدگی کے ساتھ پائے جاتے ہیں اور وسعت ِ معانی کے لحاظ سے ان کا کلام کسی تجزیے کا محتاج نہیں ۔ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ بلا شبہ ایک آفاقی شاعرہ ہیں ،ان کی شاعری میں روایتی اور جدیدتمام موضوعات کمال مہارت کے ساتھ پائے جاتے ہیںاوران کی اس فنی پختگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے اس شعر پر میں اپنی تحریر کا اختتام کروں گا جو کہ اس مضمون کا حاصل ہے اور ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے کامل شاعرہ ہونے کی دلیل ہے: جب مرا ہر ایک دکھ میرا ہنر ہو جائے گا زندگی کا یہ سفر آسان تر ہو جائے گا عشق کی لَو ایک نہ اک دن جلا دے گی مجھے پھر مرا ہر ایک دکھ مثلِ قمر ہو جائے گا۔: