تحریر : قادر خان یوسف زئی سعادت حسن منٹو کے متعلق مشہو ر ہے کہ جب وہ افسانہ تحریر کرتے تو ان کے ارد گرد چاہے کسی قسم کا بھی شورشرابا ان کی تخلیق کے درمیان حائل نہیں ہوتا تھا ۔ان کے قلم کی جولانیاں نہیں روکتی تھی ، گھر ہوں یا باہر ہوں ایک ہی نشست میں افسانہ مکمل کرلیا کرتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ لکھ کر کبھی نظر ثانی نہیں کیا کرتے تھے ۔ راجندر سنگھ بیدی صبح تین چار نیند سے بیدار ہوتے اپنے لئے چائے بنا کر لکھنے میز پر بیٹھ جاتے، جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ کو افسانہ لکھنے کے لئے کیسا ماحول درکار ہوتا ہے ہے تو ان کا جواب ہوتا ، میز پر کتابیں بکھیریں ہوں اور افسانے کے لئے ایک رِ م کاغذ اور ردی کی ٹوکری۔اگر ان کو کوئی جملہ پسند نہیں آتا تو وہ جملہ درست کرنے کے بجائے پورا صفحہ ہی پھاڑ کردیا کرتے تھے۔
کرشن چندر کو جب بھی کسی کہانی کا پلاٹ سوچھتا تو فوراََ اُس بنیادی خیال کو قلم بند کرلیتے تاکہ اُن کے ذہن سے نہ اُترجائے انہوں اس حوالے سے ایک رجسٹرڈ بنا رکھا تھا ۔کسی بھی قلم کار کا لکھنے کا اپنا ایک الگ انداز ہوتا ہے ۔ وہ جو کچھ لگتا ہے اُس کے دل و دماغ کی ہم آہنگی و فطری جذبات و احساسات کی بدولت ہی ممکن ہوتا ہے ۔ بد قسمتی سے اب سارا چلن تبدیل ہوگیا ہے۔ اب بات پسند یا نا پسند کی ہوگئی ہے ۔آج کے دور میں پرنٹ میڈیا کے مقابلے میں الیکڑونک میڈیا نے مستحکم جگہ بنا لی ہے متعدد نیوز چینلز میں فوری خبر کی آگاہی ، تبصرے اور تجزیات کے لئے ماہرین ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں ۔ اگلے دن جب پرنٹ میڈیا میں خبر چھپ کر آتی ہے تو قاری جانتا ہے کہ اخبار میں کون سی خبر شہ سرخی بنی ہوگی اور کس اخبار نے کیا لکھا ہوگا ۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا کی اہمیت اس وقت بھی الیکڑونک میڈیا سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ الیکڑونک میڈیا بمثل کسی نئی فلم کی طرح نیوز چینلز سے پرانی فلم اتار کر کسی نئی اسٹوری پر کام شروع کردیا ہے جبکہ پرنٹ میڈیا میں ایسا نہیں ہوتا ۔ انتہائی تجربہ کار اور با صلاحیت قلم کاروں و سنجیدہ صحافیوں کی اکثریت پرنٹ میڈیا کو پہلے فوقیت دیتی ہے۔
عوام آج بھی خبارات کی خبر پر الیکڑونک میڈیا کے مقابلے میں پرنٹ میڈیا کی خبروں پر زیادہ بھروسہ کرتی ہے ۔ تاہم الیکڑونک میڈیا سے زیادہ پاور فُل سوشل میڈیا بن گیا ہے ۔ الیکڑونک میڈیا بھی اپنی خبروں کے لئے عموماََ سوشل میڈیا کا سہارا لیتا ہے۔ صحافت تیزی کے ساتھ سیاست میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے ۔ پرائم ٹائم کی نیلامی میں بعض پارٹیاں اپنی تشہیر کیلئے الیکڑونک میڈیا کا زیادہ استعمال کرتی ہیں۔ پرنٹ میڈیا کا صحافی خبر بناتا نہیں بلکہ تلاش کرتا ہے صحافت ایک اخلاقی معیار ہے جس سے ہمارے بعض ادارے ابھی تک کوسوں دورہیں ۔ نا تجربہ کار افراد کی بہتات میں تمام صحافی کوہلو کی بیل کی طرح چلتے جا رہے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ نا تجربہ کو ترجیح ہی نہیں دی جائے، بھلا ناتجربے کار کو تجربہ کہاں سے ملے گا ۔ لیکن بد قسمتی سے صحافت پر سیاست غالب آگئی ہے۔ اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ میڈیا ہاوسز کسی کا کوئی شوق و جہاد نہیں ہے بلکہ ان کے کروڑوں روپوں کا سرمایہ لگے ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے کاروبار کے لئے سب کو خوش کرنا آسان نہیں ہوتا ۔ یہ انتہائی مشکل امَرہے۔ میڈیا ہاوسز عوامی چندوں یا خیرات پر نہیں چلتے انہیں اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے ایسے فیصلے بھی کرنا ہوتے ہیں جو اُن کو بھی اچھا نہیں لگتا ہوگا ۔ لیکن مکمل غیر جانبدار ہوکر کسی جماعت کا ترجمان بن جانا ضرور ایک ایک غیر صحافتی عمل ہے ۔ ناگزیر ہوچکا ہے کہ کسی جماعت اور کسی بھی فرد کو اپنی تشہیر کیلئے میڈیا کی ضرورت پڑتی ہے ۔ جدید دور کی اس سہولت کا فائدہ اٹھانے کے لئے بڑی سیاسی جماعتیں میڈیا کو استعمال کرنے پر مجبور ہوتی ہیں کیونکہ لفظ فروخت ہوتے ہیں ۔ اگر یہی ادارے سرکاری چینل کی طرح ہوجائیں تو عوام کو سب ٹھیک ہے کی ہی رپورٹ ملا کرے گی۔
یہ ضرور ہے کہ میڈیا سے بیشتر جماعتوں سے شکایات کافی ہوتی ہے ۔ ریاستی عناصر ہوں یا غیر ریاستی عناصر میڈیا کو اپنے دبائو میں رکھنے کیلئے ہر قسم کی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں ۔ یہ بھی ایک عام سے بات ہے کیونکہ عوام کے درمیان تقاریر سے انہوں نے اپنا جو امیج بنایا ہوتا ہے وہ اُسے متاثر نہیں کرنا چاہتے۔بات کافی آگے نکلتی جا رہی ہے ۔ اس لئے اس تمہید کے بعد ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کاروبار کرنا تو جائز عمل ہے لیکن سکے کے دونوں رخ دیکھانا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہوتا ہے ۔ لیکن سکے کا ایک ہی رخ دیکھا ہر ہم خود کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے سامنے خو د اپنے ادارے کی جگ ہنسائی کرتے ہیں۔ صحافت کا ادارہ ایک مقدس امانت ہے جسے خلوص اور امانت کے ساتھ پہنچانا ہمارے فرائض میں شامل ہیں ۔الیکڑونک میڈیا میں ہونے والے ٹاک شوز کو اب کبھی کبھار دیکھتا ہوں کیونکہ کسی کا بھی اخلاقی دائرے کار کی باہر ہونا غیر متوقع ہوجاتا ہے ۔ لیکن یہ اخلاقی حدود محض فوٹو سیشن بنا جاتے ہیں ۔ لیکن اس پر بد قسمتی سے بہت کم عمل درآمد ہوتا نظر آتا ہے ۔ کیونکہ ہمارا میڈیا خود کو پابند نہیں کرنا چاہتا ۔ اگر وہ خود پابند کرلے تو اُس کے ذرائع آمدنی متاثر ہونے کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔ بات سے بات نکلی ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ صحافی کو صحافت سے دور کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ خود صحافی ہی ہوتا ہے ، صحافت میں تجارت و سیاست کا رجحان پیدا کرنے والوں کے سرخیل خود صحافی ہی ہوتے ہیں۔
ہم سیاست دان ، عدلیہ اور عسکری اداروں کے احتساب کی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے میڈیا ہاوسز میں احتساب کا کوئی مربوط نظام نہیں ہے ۔ میڈیا ہاوسز ایک مقدس گائے ہے ۔ اس کے بارے میں کوئی تنقید نہیں کی جاسکتی۔ ہر میڈیا ہاوس میں لابیاں بنی ہوئی ہیں ، جن کا کام اپنے من پسند احباب کو ساتھ ملکر خود کو مضبوط بنانا اور مالکان سے اپنے فوائد حاصل کرنا رہ گیا ہے۔ کبھی کھبار میں سوچتا ہوں کہ اختر شیرانی ، سعادت حسن منٹو جیسے لکھاری نہ ہوتے تو آج ان کی تحریروںکو لائبریوں کی زینت کون بناتا ۔ انہوں نے بھی سختیاں سہی ، معاشرتی جبر برداشت کیا لیکن اُس وقت عامیانہ تحریر کہلانے والے اب فن کے استعارے بن گئے ہیں ۔ ہمارے موضوعات سمت چکے ہیں ۔ غیر جانبدار رہنے والے صحافیوں کو ادارے کے اُن لابیاں سے مخالفتوں کا سامنا ہوتا ہے جن سے اُن کی کبھی زندگی میں ایک دو بار ہی ملاقات ہو پاتی ہے۔ جھوٹ کا خمیر ان کے رگ و پے میں اس سریت کے ساتھ پھیل چکا ہے کہ اب اگر وہ سچ بولیں گے تو اُن کے پاس الفاظ نہیں ہونگے ۔ صحافت میں کوئی جونیئر یا سنیئر نہیں ہوتا ۔ اس بات پر ہمیشہ سے یقین رہا ہے لیکن کبھی کھبار سوچتا تو ضرور ہوں کہ جس صحافی کی عمر کسی سنیئر کے تجربے کے برابر بھی نہیں وہ دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں۔
اظہاریہ کے ابتدائی کلمات میں اختر شیرانی ، سعاوت حسن منٹو اور راجندار سنگھ بیدی کا ذکر کیا ۔ ان کا ایک اپنا اسلوب تھا ۔جو ابھی تک زندہ ہے ، اس طر ح ہزاروں قلم کاروں کا اپنا طرز ِ بیان ہے ۔ ہم اُن سے متاثر ہوتے ہیں ۔ متعدد اسلوب میں کچھ طرز اسلوب کو اپنا بھی لیتے ہیں ۔ لیکن ہر انسان کی اپنی ایک تخلیقی صلاحیت ہوتی ہے ۔ جو اُسے رب کائنات نے عطا کی ہوتی ہے ۔ اس کا نعم البدل نہیں ہوتا ۔ اُس سے اچھا یا اُس بُرا ضرور ہوسکتا ہے ۔ لیکن جو چیز اُس کی اپنی ہوتی ہے وہ خدا کی دین ہوتی ہے۔ہم تو اُس کی قدر کرتے ہیں دوسرے اُس کی قدر کریں یا نہ کریں ، کم ازکم مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی ۔ کیونکہ مجھے اس بات پر اللہ کا احسان ہے کہ جو عزت اُس نے عطا کی ہے وہ کوئی اُس سے چھین نہیں سکتا ۔ مسابقت ہونی چاہیے لیکن صحافت میں سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔ ہم پختونوں کے بارے میں مشہور کہاوت ہے کہ اگر زبردستی کرو گے تو کبھی جنت بھی نہیں لے جاسکتے لیکن پیار سے کہو گے تو جہنم میں بھی جانے کیلئے تیار ہیں۔ نیا سا ل آچکا ہے ۔ ہر انسان غلطی کرتا ہے ۔ کوئی انسان غلطی کا مبّرا نہیں ہے ۔ انسان ہے ہی غلطی کا پتلا ۔ جذبات کا ساتھ ہو لفظوں میں سختی اور تلخی بھی آجاتی ہے ۔ میں کسی کی خامیوں ، غلطیوں اور سازشوں کو بہت برداشت کرتا ہوں اور مجھے بھی برداشت کرتے ہیں کیونکہ غلطیاں بھی سر زد ہوتی ہیں ۔ 2018کا برس کیسے گذرے گا ۔ مجھے ذاتی طور پر اس سے کوئی غرض نہیں ۔ کیونکہ مجھے سے میرے رب کائنات مرے اعمال کا ہی پوچھے گا ۔ میں وقتاََ فوقتاََ اپنی کئی غیر دانستہ کمزوریوں کو دور کرتا رہتا ہوں ۔ کیونکہ میں اب سیاست نہیں کرتا ۔ نیک تمنائوں اور خوائشات کے ساتھ حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اپنے حصے کام کیجئے ۔بس !!