تحریر : طارق حسین بٹ شان انسان سدا سے اپنے ہم جنسوں کی فلاح و بہبود اور اس کی سلامتی کا حواہاں رہا ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن، کلچراور علم و حکمت نے انسانوں کیلئے کئی ایسے دروازے کھولے ہیں جن سے گزر کر وہ انسانیت کی بہتری ،نجات اور اور فلاح کیلئے زور آزمائی کر سکتا ہے۔ انسانی تجربات ، مشاہدات اور واقعات ہمیشہ سے انسانی ارتقاء میں ایک مضبوط عنصر کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ انسان واقعات اور حوادث سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور اسے ایسی کئی منازل کی خبر ملتی ہے جو بادی النظر میں اس کی نگاہو ں سے پوشیدہ ہوتی ہیں ۔جنگ و جدل،فساد اور انتشار کے جس جان لیوا ما حول سے انسان برداشت اور در گزر کے زینوں پر چڑھا ہے وہ کوئی معمولی پیش رفت نہیں ہے۔ہزاروں لاکھوں زندگیوں کا خراج دینے کے بعد انسان نے انسانی عظمت کی جس معراج کو چھوا ہے اس نے اس کرہِ ارض کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
کہاں پر بے ضابطگیوں کا ایک وسیع جہاں اور کہاں قانون کی حکمرانی کا ایک نیا کلچر جس میں کسی کو کوئی استثنی نہیں ۔ بادشاہوں،سپہ سالاروں ،سرداروں اور جاگیر داروں کی دنیا میں قانون کی حکمرانی کو عملی شکل میں نافذا لعمل کرنا بڑے دل گردے کا کام تھا اور اس اعلی مقام تک پہنچتے کیلئے انسان نے آگ اور خون کے کئی دریا عبور کئے ہیں ۔ اسے تو شائد خود بھی یقین نہیں ہو گا کہ وہ ایسا کر سکے گا کیونکہ قدیم زمانے میں شہنشائوں ، امراء ، سپہ سالاروں ،سرداروں اور روساء کو خصوصی اختیارات حاصل ہوتے تھے لہذا انھیں قانون و انصاف کے سامنے دو زانو کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔سچ تو یہ ہے کہ ا شرافیہ کی رضا ہی قانون ہوتی تھی لیکن قرن ہا قرن کے سفر کے بعد پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسی اشرافیہ کو قانون کے سامنے سر نگوں ہو نا پڑا کیونکہ انسان نے ذاتی تجربات،مشاہدات اور علم و فن کے بعد یہی اخذ کیا کہ انسان کی ترقی کا راز قانون کی حکمرانی میں ہے۔
قانون کی حکمرانی فقط یہ ہے کہ انسان ہونے کی جہت سے سارے انسان برابر ہیں لہذا کسی کی دولت،اس کا اقتدار،اس کی شان و شوکت، اس کا خاندانی تفاخر ،اس کا نسلی امتیاز اور اس کی قدرو منزلت قانون کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں بلکہ قانون ہر ایسی سوچ کو جس کا منبہ اس طرح کی متعصبانہ سوچ ہو اس کی مذمت کرتا ہے تا کہ انسانی برادری ایک خاص فضا اور ماحول میں آگے بڑھنے کے امکانات سے محروم نہ ہو جائے۔ انسان کی ترقی،اس کی بقا اور اس کے ارتقاء کیلئے قانون کی حکمرانی اور مساویانہ اندازِ فکر کی روش کو ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔معاشرے کے مختلف طبقات میں فکری لحا ظ سے بہت سے اختلافات موجود ہوتے ہیں۔یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جیسے ایک حساس دل رکھنے والا سوچ رہا ہے دوسرے بھی ویسے ہی سوچیں لیکن پھر بھی معدودے چند لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو مروجہ اصولوں اور قوائدو ضوابط کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں اور معاشرے کو بدل دینے کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے اور ایسے ہی لوگوں کو روائت شکن کہا جاتا ہے۔،۔
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ پولیس کا کام قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہو تا ہے اور وہ اس سلسلے میں محدود وسائل کے باوجود اپنی کاوشیں جاری رکھتی ہے ۔یہ سچ ہے کہ پولیس کے بارے عوام کی رائے مثبت نہیں کیونکہ اس کی نظروں کے سامنے جرائم سر زد ہوتے ہیں اور وہ محض دیکھنے پر اکتفا کرتی ہے لیکن ہمارا مقصد پولیس کو موردِ الزام ٹھہرانا نہیں کیونکہ پولیس کے محدود وسائل کاسب کو علم ہے۔پولیس میں بھی بہت سے ایسے اہلِ نظر لوگ موجود ہیں جو محکمہ پولیس کو بہتر بنانے کیلئے سوچتے رہتے ہیں ۔ ایک ایسی ہی خبر چند دن قبل میری نظر سے گزری جس میں ٹریفک قوانین کی عملداری کو یقینی بنانا،عوام کو آگاہی دینا ، پولیس کو ایجو کیٹ کرنا اور اس کی پرفارمنس کو بہتر بنانے کا عزم جھلک رہا تھا اور اس عزم کو بروئے کار لانے کا نادر خیال ڈی ایس پی گوجرانوالہ مقصود لون نے پیش کیا تھا۔ یہ ایک اسی تقریب تھی جو پاپولر نرسری گوجرانوالہ میں انعقاد پذیر ہو ئی تھی اور جسے سجانے کا سہرا سکول کے پر نسیپل خطیب الرحمان کے حصے میں آیا تھا ۔دیر آئید درست آئید کے مصدا ق اس فکر سے استفا دہ کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں ٹریفک قوانین کی جو مٹی پلید ہوتی ہے اس سے جان چھوٹ جائے۔
پاکستان میں لوگوں کو ٹریفک کے بارے میں آگاہی کی ضروت جتنی آج ہے شائد پہلے کبھی نہ تھی اور پنجاب حکومت یہ کام تنِ تنہا سر انجام نہیں دے سکتی ۔اس کیلئے صنعتکاروں کو سامنے آنا ہو گا اور اپنا کلیدی رول ادا کرنا ہو گا۔اگر ہم کسی بھی روڈ پر نکل جائیں تو ہمیں یہ دیکھ کر حیرانگی ہو گی کہ سیفٹی اقدامات کا کہیں نام ونشان نہیں ہوتا۔موٹر بائئیکس عام ہیں لیکن موٹر بائیکر ہر قسم کی سیفٹی سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔کبھی کبھی تو موٹر بائیکر چھ عدد سواریوں کے ساتھدھندناتا پھر رہا ہوتا ہے اور اسے اس حالت میں دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے ہیں۔یہاں سب کچھ اللہ توکل چل رہا ہوتا ہے ۔ ایلبوپروٹیکٹر ، بیک پروٹیکٹر ،شولڈر پروٹیکٹر اور ہپ پروٹیکٹر اور دوسرے سیفٹی اقدامات کا کہیں دور دور تک کوئی وجود نہیں ہوتا جس سے انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔،۔
آج کل ملک میں ویلنگ کی ایک نئی وباء پھیلی ہوئی ہے جس میں نوجوان نسل کافی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔ویلنگ کی وجہ سے حادثات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔نوجون نسل اپنے گرم خون کی وجہ سے ویلنگ کی عادت چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ویلنگ کی وجہ سے نوجوانوں کو جرمانہ بھی بھرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھار موٹر بائیک بھی چند دنوں کیلئے ضبط ہو جاتی ہے لیکن وہ پھر بھی ویلنگ سے باز نہیں آتے ۔اگر ویلنگ کو باقاعدہ شعبہ بنا دیا جائے اوراس کیلئے خصوصی ٹریکس مخصوص کر دئے جائیں توویلنگ ایک صنعت کا مقام حا صل کر سکتی ہے ۔ پوری دنیا میں ویلنگ کیلئے خصوصی ٹریک ہوتے ہیں جہاں پر عالمی مقابلے منعقدہوتے ہیں ۔ جرمنی،فرانس ،برطانیہ اور کئی یورپی ممالک میں ویلنگ کیلئے مخصوص علاقے ہیں جہاں پر وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں لہذا پاکستان میں بھی اس طرح کی سہولیات دی جانی چائیں تا کہ ٹریفک حادثات میں کمی کے ساتھ ساتھ ٹریفک کا نظام بھی بہتر ہو جائے۔
عوام کی دلچسپی کی خاطر عالمی کھلاڑیوں اور فنکاروں کی طرح بائیکس کے عالمی چیمپین کو پاکستان آنے کی دعوت دی جا سکتی ہے ۔سیالکوٹ کے مایہ ناز صنعتکار اور میرے انتہائی قریبی دوست خاور سہیل میر سیفٹی ایپرل میں کافی مہارت رکھتے ہیں لہذا اس سلسلے میں ان کے تجربات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ان کے ہاں موٹر بائیکرز کیلئے جو سیفٹی لباس تیار کئے جاتے ہیں وہ دنیا بھر کے سیفٹی سٹینڈر ز کوسامنے رکھ کر تیار کئے جاتے ہیںجھنیں عالمی فرموں سے منظور کروایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم عوام میں اس بات کا احساس اجاگر کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ سیفٹی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے تو اس سے نوجوانوں کو ڈسپلن کا پابند کرنے کے ساتھ ساتھ مقابلوں کا ماحول بھی مہیا کیا جا سکتا ہے ۔میر صاحب سیفٹی اقدامات کے حوالے سے سیالکوٹ میں سیمینارز اور تربیتی کورسز کا انعقادبھی کروانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ہنڈا ، سوزوکی اور یاما ہا کے ڈیلروں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا چاہتے۔
انھیں اس بات کی شکائت ہے کہ ڈولفن پولیس کا یونیفا رم پاکستان کے موسمی حالات کے مطابق نہیں ہے جس سے پولیس کی کارکردگی کو متاثر ہو رہی ہے لہذا بہتر نتائج کیلئے اسے پاکستان کے موسمی تقاضوں کو سامنے رکھ کر تیارکرنا ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ سیفٹی ایپرل پر ہم جس قدر زرِ مبادلہ خرچ کر رہے ہیں مقامی صنعتکا روں کی مدد اور تعاون سے ہم اسے بچا سکتے ہیں جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں اورقومی یکجہتی کو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔ان کے ذہن میں سیفٹی اقدامات کے حوالے سے مکمل خاکہ ہے جو ان سے (فون نمر ٨٦١٥١٥٠۔٠٣٠٠) پر زیرِ بحث لا یا جا سکتا ہے ۔ پنجاب کے وزیرِ اعلی میاں شہباز شریف جو اپنی پھرتیوں ایکٹو نس اور بہتر گورنس کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہو رہیں ان سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اس حساس موضوع پر اپنی توجہ مبذول کریں تاکہ اس میدان میں پاکستانی قوم اپنی صلاحیتوں کا بہتر اظہار کر سکے۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان چیرمین مجلسِ قلندرانِ اقبال